تاک تازہ پر ادائے تازہ تر رکھ دیجیے
تاک تازہ پر ادائے تازہ تر رکھ دیجیے
کچھ نہ کچھ بخشش صبا کے ہاتھ پر رکھ دیجیے
دیجیے مت گفتگو کی راہ اس بے راہ کو
ان کہی کی تیغ عریاں پر سپر رکھ دیجیے
کانپنے لگتا ہے اس لاچار کا نیلا بدن
شب کے زانو پر اگر گھبرا کے سر رکھ دیجیے
عالم گیتی کی بے لطفی سے گھبرائے نہ دل
چاہیے تو اک تماشائی دگر رکھ دیجیے
لمحۂ موجود کا دکھ بانٹنے کو دو گھڑی
کھول کر سب پیر سے لپٹے سفر رکھ دیجیے
کاوش نو دیکھیے اور کاسۂ امید میں
اک نظر اور ایک حرف معتبر رکھ دیجیے
مو قلم رکھ دیجیے پانی کی موجوں پر عبیرؔ
آب جو پر اک بنائے مستقر رکھ دیجیے