تعبیروں کی حسرت میں کیسے کیسے خواب رہے

تعبیروں کی حسرت میں کیسے کیسے خواب رہے
دولت اک دن برسے گی اب تو اپنی باری ہے
اللہ جب بھی دیتا ہے چھپر پھاڑ کے دیتا ہے
اس امید پہ ساری عمر چھپر تلے گزاری ہے