سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی: مسلمان کیا کرسکتے ہیں؟
اس وقت سویڈن کی پر امن فضائیں دنگا و فساد کی زد میں ہیں۔ وجہ؟ وجہ ہے ڈنمارک کا ایک شعبدہ باز سیاستدان رازمس پالیوڈن(Rasmus Paludan)۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ شخصجمعرات کے دن سویڈش پولیس کی حفاظت میں سویڈن کے شہر لنکا پن میں مسلم اکثریتی علاقے میں برآمد ہوا۔ کھلی جگہ پر پہنچ کر اس نے قرآن پاک کا نسخہ جلانا چاہا۔ وہ پولیس کی سخت حفاظت میں تھا۔ وہاں موجود دو سو کے قریب مسلمانوں نے پولیس سے التجائیں کیں کہ خدارا اس شعبدہ باز کو ایسے بدترین اقدام سے روکیں۔ پولیس نے مسلمانوں کو نظرانداز کیا۔ شعبدہ باز وہ اقدام کر گیا جس نیت سے وہ وہاں آیا تھا۔ رب تعالیٰ کے حکم نامے کے نسخے کو نذرآتش دیکھ کر مسلمان صبر نہ کر پائے اور احتجاج کرنے لگے۔ رپورٹس کے مطابق انہوں نے پولیس پر پتھراؤ کیا۔
اگلے دن جمعے کو رازمس نے سویڈن کے ایک اور شہر اوربرو میں اپنی شعبدہ بازی کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ یہاں اس کو روکنے کے لیے مسلمانوں نے اس کے مکروہ اقدام سے پہلے ہی جارحانہ احتجاج شروع کر دیا۔ انہوں نے چار پولیس گاڑیاں جلا ڈالیں اور رکاوٹیں روند ڈالیں۔ اسی قسم کے احتجاج سویڈن کے دیگر شہروں میں بھی سامنے آئے جہاں رازمس اپنی شعبدہ بازی کا منصوبہ رکھتا تھا۔ پولیس نے کہا کہ اس نے اتوار کو چونتیس افراد گرفتار کیے ہیں جو پر تشدد احتجاج میں ملوث تھے۔
سویڈن کی وزیر اعظم نے احتجاج میں سخت راستے اختیار کرنے والے اور رازمس کی حرکات دونوں کی مذمت کی ہے۔ لیکن سویڈن میں ترکی سے تعلق رکھنے والے ایک سیاست دان میخائل اوکسل جنہوں نے سویڈن میں پارٹی آف ڈفرنٹ کلرز (مختلف رنگوں کی پارٹی) بنا رکھی ہے، نے ان تمام واقعات پر رد عمل دیتے ہوئے کہا ۔ "ایک متعصب اور اسلام مخالف سیاست دان کے اسلام وفوبک اقدامات پولیس کی حفاظت میں جاری ہیں۔ پالیوڈن وہ علاقے مسلمانوں کو اکسانے کے لیے منتخب کر رہا ہے جہاں مسلمان بڑی تعداد میں ہیں اور مساجد قریب ہیں۔ ایسا سویڈن جو انسانی حقوق، مذہبی آزادی اور ضمیر کی آواز پر مبنی معاشرے کا دعویٰ کرتا ہے، اس میں پولیس کی حفاظت میں قرآن پاک کو جلایا جا رہا ہے۔ (بجائے اس کے کہ پولیس پولیوڈن کو روکے الٹا) پولیس مسلمانوں کو ہی کہہ رہی ہے کہ ہوش کے ناخن لیں جبکہ قرآن پاک کے نسخے ان کی آنکھوں کے سامنے جلائے جا رہے ہیں۔"
رازمس پالیوڈن جو اپنے مذموم عزائم کے ساتھ اس وقت سرگرم ہے، ایسا نہیں ہے کہ وہ صرف اب ہی ایسا کرنے کھڑا ہوا ہے۔ وہ ایک نسل پرست اور متعصب سیاست دان ہے۔ اس کے ایسے اقدامات کی ایک تاریخ ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ تمام مسلمانوں کو یورپ سے نکال دیا جائے اور یورپ کو صرف یورپی سفید فاموں کے لیے خاص کر دیا جائے۔ یہ شعبدہ باز 2017 میں اس وقت منظر عام پر آیا جب اس نے یوٹیوب پر مسلمانوں کے خلاف ویڈیوز بنانا شروع کیں۔ وہ ڈنمارک کا شہری ہے اور اس کا باپ سویڈن سے تعلق رکھتا تھا۔ آزادی رائے کی آڑ لے کر اس نے ڈنمارک میں کئی بار قرآن پاک کو جلا کر مسلمانوں کے جذبات مجروح کیے ہیں۔ 2018 کی ایک ویڈیو میں اس نے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارے دشمن اسلام اور مسلمان ہیں۔ بہت ہی اچھا ہو کہ اس زمین پر ایک بھی مسلمان نہ بچے۔ تب ہی ہم اپنا اصل ہدف حاصل کر پائیں گے۔ پالیوڈن کو 2019 میں نسل پرست اور متعصب تقریر کرنے پر چودہ روز کی جیل بھی ہو چکی ہے۔ یہ جیل اسے 2019 میں ڈنمارک میں ہوئی تھی۔ ایک سال بعد اسے ایک ماہ کی اور بھی اسی قسم کے جرائم پر سزا ہوئی تھی۔ یہ اور اس کی سیاسی پارٹی اپنے اس قسم کے اقدامات کی وجہ سے دو سال کے لیے بیلجیم سے بھی بین ہو چکی ہے اور یہ فرانس سے ڈی پورٹ بھی ہوا تھا۔ رازمس کو دو سال کے لیے سویڈن میں داخل ہونے سے روک بھی دیا گیا تھالیکن اس کا باپ سویڈش شہری نکلا۔ اس وجہ سے اس پر سے بین ہٹانا پڑا۔ پالیوڈن نے 2019 مین ڈنمارک میں انتخاب لڑا لیکن ایک سیٹ بھی حاصل نہ کر پایا۔ اب وہ سویڈن سے انتخاب لڑنا چاہتا ہے۔ اسی لیے اپنی شعبدہ بازیوں پر اترا ہوا ہے۔
رازمس پالیوڈن جیسے رہنما تو اپنا کام کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مسلمان ان کے اقدامات پر رد عمل کیا دے رہے ہیں۔؟ حالیہ سویڈن کے واقعات پر وہی روایتی رد عمل سامنے آیا ہے۔ اسلامی ممالک نے اپنے مذمتی بیانات جاری کیے ہیں۔ عراق نے ایک قدم آگے بڑھ کر اپنے ملک میں سویڈش سفیر کو بلا کر اس کے سامنے احتجاج کیا ہے۔ دنیا بھر میں مسلمان سڑکوں پر آئے ہیں۔ لیکن اس شدت سے نہیں جیسے پہلے آیا کرتے تھے۔ سویڈن ، جہاں اصل واقعات رونما ہو رہے ہیں وہاں احتجاج ذرا جلاؤ گھیراؤ کی طرف چل نکلا ہے۔ لیکن یہ سب اس بیماری کا علاج تو نہیں ۔
پالیوڈن جیسے لوگ مسلمانوں کو یورپی ممالک سے بے دخل کرنا چاہتے ہیں۔ جب مسلمان ان کے مذموم اقدامات سے بے بس ہو کر بے چین ہوتے ہیں تو وہ بڑی آسانی سے یورپی عوام کو بتانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ مسلمان پر تشدد اور انتہاپسند ہیں۔ یہ یورپی اقدار جیسا کہ آزادی رائے وغیرہ کے ساتھ نہیں چل سکتے۔ اپنی اقدار بچانے کے لیے ضروری ہے ان کی یورپ میں آمد پر پابندی لگائی جائے۔ جو یہاں پر موجود ہیں انہیں واپس بھیجا جائے۔ یورپی پارلیمنٹوں میں اس قسم کے خیالات کے حامیان کی بڑھتی تعداد بتا رہی ہے کہ اس قسم کے شعبدہ بازوں کا چورن بک رہا ہے۔
مسلمان رہنماؤں کے پاس اس مسئلے کا حل صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ وہ یورپی لیڈران کو مجبور کریں کہ وہ اپنے ممالک میں قرآن پاک جلانے اور حضور پاکﷺ جیسی مقدس ہستیوں کی گستاخی پر پابندی لگائیں۔ اس کے لیے اقوام متحدہ میں قرارداد منظور کروائیں اور یورپی عدالتوں سے فیصلے لیں۔ معاشی و سفارتی دباؤ بڑھائیں۔ نہیں تو ٹمپریچر بڑھ رہا ہے اور چیزیں تشویش ناک راستے پر گامزن ہیں۔ دنیا کے وہ خطے جو انسانوں کے لیے پر امن ہیں آگ کی لپیٹ میں آتے جا رہے ہیں۔ اس پر تشویش یورپی ہوش مند لوگوں اور رہنماؤں کو بھی ہونی چاہیے۔