سودیشی تحریک
وطن کے درد نہاں کی دوا سدیشی ہے
غریب قوم کی حاجت روا سدیشی ہے
تمام دہر کی روح رواں ہے یہ تحریک
شریک حسن عمل جا بجا سدیشی ہے
قرار خاطر آشفتہ ہے فضا اس کی
نشان منزل صدق و صفا سدیشی ہے
وطن سے جن کو محبت نہیں وہ کیا جانیں
کہ چیز کون بدیشی ہے کیا سدیشی ہے
اسی کے سایہ میں پاتا ہے پرورش اقبال
مثال سایۂ بال ہما سدیشی ہے
اسی نے خاک کو سونا بنا دیا اکثر
جہاں میں گر ہے کوئی کیمیا سدیشی ہے
فنا کے ہاتھ میں ہے جان ناتوان وطن
بقا جو چاہو تو راز بقا سدیشی ہے
ہو اپنے ملک کی چیزوں سے کیوں ہمیں نفرت
ہر اک قوم کا جب مدعا سدیشی ہے