سورج کی پہلی کرن

سن اے ہوائے بے دلی
ابھی تو چشم تر میں ان کی صورتیں
رواں دواں ہیں جن کے سانس کی مہک
میں جا چکی بہار کا نکھار ہے
کہ جن کے خواب کی چمک پلک پلک
بکھرتی آرزو میں پائیدار ہے
ابھی تو ان کی خاک کو زمین بھی نہیں ملی
سن اے ہوائے بے دلی
اگرچہ اس دیار میں ہر ایک سو
کئی رتوں کی گم شدہ بہار کا فشار ہے
غبار انتظار ہے
مگر یہ زرد گھاٹیاں یہ کاروان بے نشاں
سفر کی انتہا نہیں
دھواں دھواں ہیں جسم و جاں مگر زباں ہے گل فشاں
کہ دل ابھی مرا نہیں
نظر میں ہے وہ فصل گل جو اب تلک نہیں کھلی
سن اے ہوائے بے دلی
ہمیں اسی زمین سے رفاقت یقین ہے
ملے گی کشت آرزو
کہ روشنی کی جستجو میں روشنی کا راز ہے
ہمارے ارد گرد کی ہر ایک شے سوال ہے
ان انگلیوں کی پور پور صاحب کمال ہے
الوداع الوداع اے بے دلی
کہ یہ ہماری دوستی کا نقطۂ زوال ہے