سرخ تھے خوں سے اوس کے قطرے
سرخ تھے خوں سے اوس کے قطرے
پھول کی پنکھڑی پہ جب چھٹکے
پھر ترے حسن کے شگوفے کھلے
چاندنی مہکی رنگ سے چھلکے
پھر نگاہوں میں چھا گئی مستی
پھر گھٹا اٹھی زلف کو کھولے
خواب تھے تیرے کس قدر رنگیں
خلوت شب میں پھول سے برسے
تو شبستاں میں مست سوتی رہی
چاندنی لے گئی ترے بوسے
بجلیوں سے سجی سہاگ کی رات
تابش حسن سے جلے سہرے
پی لیا آج زہر غم ہم نے
بجھ گئے آج آنسوؤں کے دیے