سرخ سیدھا سخت نیلا دور اونچا آسماں
سرخ سیدھا سخت نیلا دور اونچا آسماں
زرد سورج کا وطن تاریک بہتا آسماں
سرد چپ کالی سڑک کو روندتے پھرتے چراغ
داغ داغ اپنی ردا میں سر کو دھنتا آسماں
دور دور اڑتا گیا میں نور کے رہوار پر
پھر بھی جب بھی سر اٹھایا منہ پہ دیکھا آسماں
جانے کب سے بے نشاں وہ چاہ شب میں غرق تھا
میں جو اٹھا ہو گیا اک دم اجالا آسماں
ناچتا پھرتا شرر بھی نیم شب کی گود میں
دل لگی کا اک جتن تھا کچھ تو کھلتا آسماں