سرخ ہو جاتا ہے منہ میری نظر کے بوجھ سے
سرخ ہو جاتا ہے منہ میری نظر کے بوجھ سے
کیا بنے گی زیور گلہائے تر کے بوجھ سے
یوں ہوئے ہیں خاک بعد دفن تیرے ناتواں
پس گئے ہیں چادر گلہائے تر کے بوجھ سے
شرم گو کم ہو گئی پر نازکی کو کیا کریں
اب جھکے جاتے ہیں خود اپنی نظر کے کے بوجھ سے
اف ری تیری ناتوانی لاغری اللہ رے ضعف
ایک ہی کروٹ سے ہوں داغ جگر کے بوجھ سے
ہلتے ہیں ابرو ترے بار گل رخسار سے
جس طرح شاخیں لچکتی ہیں ثمر کے بوجھ سے
دل سے آہیں چل چکی ہیں ہو گیا ممکن وصال
اب لبوں تک آ نہیں سکتیں اثر کے بوجھ سے
یاس و حسرت سے یہ بلبل کی گرانباری ہوئی
لاکھ من کا ہے قفس اک مشت پر کے بوجھ سے
جامۂ اصلی بہت کہنہ ہوا ہے اے رشیدؔ
چاک ہو جائے نہ اشک چشم تر کے بوجھ سے