سقوط ڈھاکہ: چند تاریخی حقائق
حبیب جالب کے چار مصرعے جو انہوں نے 25 مارچ 1971 کو ڈھاکہ میں آپریشن سرچ لائٹ پر کہے تھے:
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خون سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
شیخ مجیب الرحمان نے 1947ء میں ہی بنگالی زبان کو قومی زبان بنانے کا مطالبہ کیا تھا ۔
5 فروری 1966 کو ایوب خان کے خلاف ایک کنونشن لاہور میں منعقد ہوا تھا ۔اس کنونشن کے کنوینر نوابزادہ نصر اللہ خان تھے اس کنونشن میں شیخ مجیب الرحمٰن بھی شریک تھے۔ لہٰذا اسی کنونشن میں پہلی بار مشہور چھ نکات پیش کیے گئے تھے۔
وہ 6 نکات یہ تھے:
1۔قرارداد لاہور کے مطابق آئین کو حقیقی معنوں میں ایک فیڈریشن کی ضمانت دیتے ہوئے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منتخب مقننہ کی بالا دستی اور پارلیمانی طرز حکومت پر مبنی ہونا چاہیے۔
2۔وفاقی حکومت صرف دو محکمے یعنی دفاع اور امور خارجہ اپنے پاس رکھے گی ، جب کہ دیگر محکمے وفاق کی تشکیل کرنے والی وحدتوں میں تقسیم کر دیئے جائیں گے ۔
3۔ (الف) ملک کے دونوں بازؤوں میں دو علیحدہ مگر باہمی طور پر تبدیل ہو جانے والی کرنسی متعارف کرائی جائے۔ یا
(ب) پورے ملک کے لیے ایک ہی کرنسی رائج کی جائے ، تاہم اس کے لیے موثر آئینی دفعات کی تشکیل ضروری ہے تاکہ مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان کو رقومات کی ترسیل روکی جا سکے ۔ مشرقی پاکستان کے لیے علیحدہ بینکنگ ریز روز قائم اور الگ مالیاتی پالیسی اختیار کی جائے ۔
4۔محاصل اور ٹیکسوں کی وصولی کے اختیار کو وفاق کی وحدتوں کے پاس رکھا جا ئے ۔ مرکز کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہونا چاہیے تاہم فیڈریشن وفاقی وحدتوں کے ٹیکسوں میں حصے دار ہو گی تا کہ وہ اپنی ضروریات پور ی کر سکے ۔ ایسے وفاقی فنڈز پورے ملک سے جمع ہونے والے ٹیکسوں کے طے شدہ فیصد تناسب پر مشتمل ہوں گے ۔
5۔(الف) دونوں بازوؤں میں زرمبادلہ کی آمدنی کے لیے دو علیحدہ اکاؤنٹس ہونے چاہیں اور (ب) مشرقی پاکستان کی آمدنی کومشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی آمدنی کو مغربی پاکستان کے کنٹرول میں ہونا چاہیے۔
(ج) مرکز کی زر مبادلہ کی ضروریات ، دونوں بازوؤں کو مساوی طور پر یا کسی طے شدہ تناسب کے مطابق پوری کرنا ہوں گی ۔
(د)ملکی مصنوعات کی دونوں بازوؤں کے درمیان آزادانہ نقل و حمل پر کوئی ڈیوٹی عائد نہیں کی جائے گی۔
(ہ)آئین کی رو سے وفاقی وحدتوں کو یہ اختیارات حاصل ہوں گے کہ وہ غیر ممالک میں تجارتی مشن کے قیام کے ساتھ تجارتی معاہدے نیز تجارتی تعلقات قائم کر سکیں۔
6۔مشرقی پاکستان کے لیے ملیشیا یا ملٹری فورس کا قیام
6 جنوری 1968 کو ایک وزارت داخلہ نے ایک پریس نوٹ جاری کیا گیا کہ دو سی ایس پی افسران سمیت آٹھ افراد کو غداری کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ وہ الگ بات کہ اصل تعداد 35 تھی جن میں 8 سی ایس پی اور باقی ملٹری آفیسرز تھے۔ سازش کا مرکز اگرتلہ کو قرار دیا گیا جو مشرقی پاکستان سے ملحقہ بھارتی صوبے تری پورہ کا دارالحکومت تھا۔
12 جنوری 1968 یعنی چھ دن بعد مجیب کو اس سازش کا مرکزی کردار قرار دے دیا گیا: یہ ذہن میں رہے کہ مجیب 1966 سے حکومت پاکستان کے زیر حراست تھا۔ تحقیقات کے لیے تین رکنی عدالتی ٹریبونل جسٹس ایس اے رحمان کی زیر صدارت بنایا گیا۔ جسٹس رحمان کو چیف جسٹس کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔ اس مقدمے کو "ریاست بنام مجیب" کا نام دیا گیا۔ منظور قادر وفاق کی طرف سے اس کی پیروی کر رہے تھے اور اٹارنی جنرل ٹی ایچ خان ان کی بھرپور معاونت کر رہے تھے۔ جبکہ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ تینوں غیر بنگالی تھے۔ کل 227 گواہان پیش کئے گئے جن میں سے 11 سلطانی وعدہ معاف گواہ بن گئے۔ لیکن ان وعدہ معاف گواہوں نے حکومت کا بھانڈا عین عدالت کے سامنے پھوڑ دیا کہ ان سے تشدد کے ذریعے یہ بیان لیا گیا ہے۔ اسی دوران کئی سنجیدہ حلقوں نے اس ٹرائل کو نفرتوں کی سفارت کاری قرار دیا۔
اس ٹرائل کے خلاف تحریک زوروں پہ تھی اور مقدمہ بھی انڈر ٹرائل تھا کہ 15 فروری 1969 کو مقدمے کے نامزد ملزمان سارجنٹ ظہور الحق اور فضل حق پر فرار ہونے کا الزام عائد کر کے گولی چلا دی گئی۔ جس کے نتیجے میں ظہورالحق جاں بحق ہو گیا۔ سارجنٹ ظہور الحق کی ہلاکت نے پورے مشرقی پاکستان میں ہنگامہ برپا کر دیا۔ مظاہرین نے اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں آگ لگا دی۔ جسٹس رحمان اور منظور قادر کی جان بڑی مشکل سے بچائی گئی جبکہ اس کیس کی تمام فائلیں بهی جل کر راکھ ہو گئیں۔
ٹھیک سات دن بعد 22 فروری 1969 کو ایوب نے کیس واپس لیتے ہوئے مجیب کو رہا کرنے کا حکم دیا لیکن تب تک تیر کمان سے نکل چکا تھا۔
23 فروری 1969 کو ڈھاکہ میں پلٹن کا میدان عوامی لیگ کے حامیوں سے ہٹا پڑا تھا اور بنگلہ بندھو کے نعروں سے گونج رہا تھا۔
25 مارچ 1969ء: جنرل ایوب خان نے اقتدار یحییٰ خان کے سپرد کر دیا۔
14 اپریل 1969ء:1962 ء کا منسوخ شدہ آئین عارضی طور پر بحال کر دیا گیا۔
28 اپریل 1969ء: جسٹس عبدالستار کی سربراہی میں الیکشن کمیشن تشکیل دیا گیا۔
یکم ستمبر 1969ء: وائس ایڈمرل ایس ایم احسن مشرقی پاکستان کے گورنر بنا دیئے گئے اور مارشل لاء مشینری کی سربراہی لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب علی خان کو دے دی گئی۔
28 نومبر 1969ء: انتخابات کے لئے 15 اکتوبر 1970ء کی تاریخ دی گئی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات قومی اسمبلی میں دستور سازی کی تکمیل کے ساتھ مشروط کر دیئے گئے۔
یکم جنوری 1970ء: سیاسی سرگرمیاں بحال کر دی گئیں۔
30 مارچ 1970ء: یحییٰ خان نے ایل ایف او (لیگل فریم ورک آرڈر) جاری کیا۔
15 ستمبر 1970ء: چیف الیکشن کمشنر نے مشرقی پاکستان میں سیلاب کے سبب نئے انتخابی شیڈول کا اعلان کر دیا۔ جس کے مطابق قومی اسمبلی کے انتخابات 7 دسمبر 1970 اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 17دسمبر 1970 کو ہونا قرار پائے۔
٭ انتخابات میں پیپلز پارٹی نےروٹی کپڑا اور مکان جبکہ عوامی لیگ نے چھ نکات کی بنیاد پر اپنی انتخابی مہم چلائی۔
٭ مولانا عبدالحمید بھاشانی نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔
٭قومی اسمبلی کی کل 313 نشستیں تھیں جن میں سے 13خواتین کے لئے مخصوص تھیں۔
7 دسمبر 1970ء: عام انتخابات میں عوامی لیگ نے 313 میں سے 167 نشستیں اپنے نام کیں ، جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی نے 86 نشستیں حاصل کیں ۔ واضح رہے کہ 1970 کے انتخابات میں 300 جنرل نشستیں اور 13 خواتین کے لیے مخصوص تھیں۔ یوں عوامی لیگ نے 53 فیصد سے زائد نشستیں حاصل کر کے با آسانی سادہ اکثریت حاصل کر لی ۔
3 جنوری 1971ء: مجیب نے عوامی لیگ سے وابستہ قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین کو ڈھاکا میں جمع کیا اوران سے چھ نکات سے وفاداری کا حلف لیا۔
12 جنوری 1971ء: جنرل یحییٰ خان مجیب سے ملنے مشرقی پاکستان گئے اور مجیب کو وزیر اعظم بنانے کا عندیہ بھی دے آئے۔
17 جنوری 1971ء: جنرل یحییٰ خان ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کے لئے لاڑکانہ گئے۔
27 جنوری 1971ء: ذوالفقار علی بھٹو اپنی جماعت کے کچھ اراکین کے ساتھ مجیب الرحمٰن سے ملنے ڈھاکا گئے۔ مگر اپنے مقاصد میں ناکام واپس آئے۔
11 فروری 1971ء: بھٹو نے راولپنڈی میں جنرل یحییٰ خان سے ملاقات کی جس کے دو روز بعد قومی اسمبلی کا 13 فروری 1971 کا اجلاس ملتوی کر دیا گیا اور اگلے اجلاس کی تاریخ 3 مارچ 1971 دی گئی اجلاس ڈھاکا میں طلب کیا گیا۔
15 فروری 1971ء: بھٹو نے پشاور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ اجلاس بلانے کی تاریخ ان کے لئے ایک سرپرائز ہے۔
21 فروری 1971ء: پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کے ڈھاکا اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
22 فروری 1971ء: جنرل یحییٰ نے گورنرز مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرز اعلیٰ سطحی فوجی اور سویلین حکام کے ساتھ ایک نشست کی اور ملکی صورتحال پر غور کرتے ہوئے اسمبلی اجلاس ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا مگر اس کا اعلان یکم مارچ 1971 کو کیا۔
٭ اجلاس ملتوی کرنے کا مشرقی پاکستان میں شدید رد عمل ہوا۔ اور کچھ دن عوامی احتجاج میں گزرے۔
6 مارچ 1971ء: لیفٹیننٹ جنرل ٹکا خان مشرقی پاکستان کے گورنر مقرر کر دیئے گئے۔
7 مارچ 1971ء: شیخ مجیب الرحمٰن کا ڈھاکا میں عوامی اجتماع سے خطاب۔ مجیب نے اعلان کیا ہماری جدوجہد آزادی کی جدوجہد ہے۔ ساتھ ہی عدم تعاون کی تحریک بھی شروع کردی گئی۔
15 مارچ 1971ء: جنرل یحییٰ نے ڈھاکا میں مجیب سے ملاقات کی۔ مجیب نے اصلاح احوال کے لئے مارشل لاء اٹھانے قومی اسمبلی قانونی اور آئینی طریقے سے فعال کرنے اور اقتدار قومی و صوبائی سطح پر منتقل کرنے کی قابل عمل شرائط پیش کیں۔
مذاکرات کا عمل 21 مارچ 1971 تک جاری رہا لیکن کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکا۔
22 مارچ 1971ء: شیخ مجیب اور ذوالفقار علی بھٹو کے مشیروں کے درمیان مذاکرات ہوئے مگر بے نتیجہ رہے۔
24 مارچ 1971ء: عوامی لیگ کی تجاویز پر بات چیت کے لئے بھٹو اور یحییٰ خان کے درمیان ملاقاتیں رہیں۔
25 مارچ 1971ء: پاک فوج نے ڈھاکا میں آپریشن سرچ لائٹ کے نام سے کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔ شیخ مجیب الرحمٰن کو گرفتار کر لیا گیا۔
26 مارچ 1971ء: پاکستانی فوج کے ایک باغی میجر ضیاء الرحمٰن نے مجیب الرحمٰن کی حمایت کرتے ہوئے بنگلہ دیش کی آزادی کی خاطر اعلان جنگ کر دیا۔ اسی روز بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے مشرقی پاکستان کے عوام کو بھر پور تعاون کی یقین دہانی کرا دی۔ ساتھ ہی بھارت میں پناہ کے لئے مشرقی پاکستان سے متصل اپنی سرحدیں کھول دیں۔ مغربی بنگال کی حکومت نے بہار، آسام، میگھالیہ اور تری پورا میں سرحدوں کے ساتھ مہاجر کیمپ قائم کر دیئے۔ جہاں پر مشرقی پاکستان کے جلاوطن افسروں اور رضا کاروں نے بھارت کے تعاون سے مکتی باہنی کے گوریلوں کی تربیت شروع کر دی۔
9 اگست 1971ء: بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے سوویت یونین کے ساتھ دوستی اور باہمی تعاون کے بیس سالہ معاہدے پر دستخط کئے۔
20 اگست 1971 کو ایک بنگالی انسٹریکٹر مطیع الرحمان نے پاک فضائیہ کا طیارہ اغواء کرنے کی کوشش کی جسے راشد منہاس شہید نشان حیدر نے اپنی جان پہ کھیل کر ناکام بنایا۔
31 اگست 1971ء: ایم اے مالک کو مشرقی پاکستان کا نیا گورنر اور جنرل نیازی کو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنایا گیا۔
16 اکتوبر 1971ء: سابق گورنر مشرقی پاکستان عبدالمنعم خان ایک قاتلانہ حملے میں جاں بحق ہو گئے۔
21 نومبر 1971ء: بھارت نے مشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا۔ پاکستانی افواج کی کمک اور سپلائی لائن بند ہو گئی۔
23 نومبر 1971ء: پاکستان بھر میں ہنگامی حالت کا اعلان کر دیا گیا۔
3 دسمبر 1971ء: بھارت نے دوسری بھرپور جارحیت باقاعدہ اعلان ِ جنگ کے ساتھ کی۔
11 دسمبر 1971ء: بھارت نے اقوام متحدہ کی جنگ بندی کی قرارداد مسترد کر دی۔
14 دسمبر 1971ء: آل انڈیا ریڈیو نے پاکستان کی شکست کی خبریں نشر کرنا شروع کر دیں۔
16 دسمبر 1971ء: دوپہر کے وقت بھارتی فوج کی ایسٹرن کمانڈ کا یہودی چیف آف اسٹاف میجر جنرل جیکب ڈھاکا پہنچا۔ اس کا استقبال اس کے پاکستانی مدمقابل بریگیڈیئر باقر صدیقی نے کیا۔
یہودی جنرل اپنے ساتھ ایک دستاویز لایا تھا جسے سقوط کی دستاویز (Instrument of Surrender) کہا جاتا ہے۔ جنرل نیازی اسے جنگ بندی کا مسودہ کہنا پسند کرتے تھے۔
جنرل جیکب نے کاغذات پاکستانی حکام کے حوالے کیے۔ جنرل فرمان نے کہا: یہ ہندوستان اور بنگلہ دیش کی مشترکہ کمان کیا چیز ہے، ہم اسے تسلیم نہیں کرتے۔ جنرل جیکب نے کہا۔ مجھے اس میں رد و بدل کا اختیار نہیں۔ انڈین ملٹری انٹیلی جنس کے کرنل کھیرا نے لقمہ دیا ، یہ ہندوستان اور بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے،جہاں تک آپ کا تعلق ہے آپ صرف ہندوستانی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال رہے ہیں۔ جنرل فرمان نے کاغذات جنرل نیازی کے آگے سرکا دیے۔ جنرل نیازی جو ساری گفتگو سن رہے تھے، خاموش رہے۔ اس خاموشی کو ان کی مکمل رضا سمجھا گیا۔
تھوڑی دیر بعد نیازی بھارت اور بنگلہ دیش کی مشترکہ ایسٹرن کمانڈ کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کو لینے ڈھاکا ائیرپورٹ گئے بھارتی کمانڈر اپنی فتح کی خوشی میں اپنی بیوی کو بھی ساتھ لایا تھا۔ جونہی یہ میاں بیوی ہیلی کاپٹر سے اترے بنگالی مردوں اور عورتوں نے اپنے اس نجات دہندہ کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ان کو پھولوں کے ہار پہنائے گلے لگایا بوسے دیے اور تشکر بھرے جذبات سے انہیں خوش آمدید کہا۔ جنرل نیازی نے بڑھ کر فوجی انداز میں سلیوٹ کیا، پھر ہاتھ ملایا۔
یہ نہایت دلدوز منظر تھا۔ فاتح اور مفتوح ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے تھے۔
جنرل نیازی اور جنرل اروڑا وہاں سے سیدھے رمنا ریس کورس گراؤنڈ پہنچے جہاں سرعام جنرل نیازی سے ہتھیار ڈلوانے کی تقریب منعقد ہوئی تھی۔
تقریب کا نظارہ کرنے کے لیے ہزاروں بنگالی موجود تھے۔ جنہیں بھارتی سپاہیوں نے روک رکھا تھا۔
تقریب کے لیے تھوڑی سی جگہ باقی تھی جہاں ایک چھوٹی سی میز پر بیٹھ کر جنرل جگجیت سنگھ اروڑا اور جنرل نیازی نے سقوط مشرقی پاکستان کی دستاویز پر دستخط کر دئیے۔ اس کے بعد نیازی نے اپنا ریوالور نکال کر اروڑہ کو پیش کر دیا اور یوں سقوط ڈھاکا پر آخری مہر ثبت کر دی۔
اس موقع پر جنرل اروڑہ نے پاکستانی سپاہیوں کی ایک گارڈ آف آنر کا معائنہ کیا جو اس بات کی علامت تھا کہ اب وہی گارڈ ہیں اور وہی آنر کے مستحق ۔۔۔۔پروفیسر عنایت علی خان مرحوم نے کہا تھا
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہُوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر