آئی ایم ایف کو راضی کرنے کے لیے ابھی اور کتنے ٹیکس لگیں گے؟
نیا ٹیکس آ گیا، چھکے چھڑا گیا، ہوش اڑا گیا
ویسے آپس کی بات ہے، ہوش تھی ہی کہاں؟
نئی حکومت کیا آئی ہے، بجٹ کے بعدبھی بجٹ آرہے ہیں، مہنگائی کی ہر ہفتے نئی لہر آتی ہے اور عوام کا جینا ہر آنے والے دن میں دوبھر ہوتا جارہا ہے۔سابق خادم اعلیٰ اور موجودہ وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے وزیر خزانہ کے ہمراہ عوام کی خدمت میں چار سو چھیاسٹھ ارب روپے کا نیا ٹیکس پیش کر دیا ہے۔ نوکری پیشہ طبقہ چکرا رہا ہے اور کاروباری طبقہ سر ٹکرا رہا ہے۔ شکنجے میں دونوں کی گردن مزید کسی گئی ہے۔ یہ کل جو سٹاک مارکیٹ دو ہزار پوائنٹس گری ہے، یہ آنے والے دنوں کی معاشی فلم کا ٹریلر ہے جس کا ہیرو ’سپر ٹیکس ‘ ہے۔ ایکشن اور ماردھاڑ سے بھرپور، جس کا ٹریلر دیکھ کر ہی سٹاک مارکیٹ کریش کرگئی ہے۔
پہلے بات کر لیتے ہیں، نوکری پیشہ افراد کی۔ابھی چند دن پہلے بجٹ پیش کرتے ہوئے حکومت نے اگر کم تنخواہ دار طبقے کو ٹیکس میں کچھ چھوٹ دی بھی تھی تو آئی ایم ایف اس پر ناراض ہوگیا، لہٰذا دو ہفتے بھی نہیں گزرے کہ ٹیکس سلیبز تبدیل کردی گئی ہیں۔ پہلے ایک لاکھ تک تنخواہ والے افراد پر کوئی ٹیکس نہیں تھا، لیکن اب ہے۔ اگر تو ان کی آمدن ہے پچاس ہزار ماہوار سے لے کر ایک لاکھ ماہ وارہے، تو بھئی نکالیں ڈھائی فیصد لگان یعنی ٹیکس۔ جو ایک لاکھ سے دو لاکھ کماتے ہیں ان پر ٹیکس ہے جی ساڑھے بارہ فیصد۔جو کماتے ہیں دو سے تین لاکھ وہ تو پہلے بھریں ناں ایک لاکھ پینسٹھ ہزار۔ پھر ان سے لیا جائے گا بیس فیصد دو لاکھ سے اوپر کی آمدن پر۔ لیں بھئی جو کما لیتے ہیں تین سے پانچ لاکھ ماہوار ان سے بھی ایک تو پچیس فیصد ٹیکس اینٹھا جائے گا اس رقم پر جو تین لاکھ سے زائد ہوگی۔ اس کے علاوہ، صرف برکت کے لیے چار لاکھ سالانہ لیے جائیں گے اور بس۔ باقی رقم سے وہ کھل کر عیاشی کر سکتے ہیں۔ آئے ہائے ہائے جو کماتے ہیں بھئی پانچ لاکھ سے دس لاکھ ماہوار، وہ تو نکالیں ناں صرف دس لاکھ پانچ ہزار سیدھا سیدھا سالانہ۔ باقی جو تھوڑا بہت پانچ لاکھ سے اوپر کماتے ہیں اس پر بتیس فیصد دے دیں تو مہربانی ہوگی۔ لیں بھئی اب اس ضمن میں ذکر ہے آخری مرغے کا۔ جو کماتا ہے بھئی دس لاکھ ماہوار سے اوپر وہ نکالے ساڑھے انتیس لاکھ سیدھا سیدھا۔ پھر دس لاکھ ماہوار سے اوپر جو کماتا ہے اس کا پینتیس فیصد کے حساب سے حساب کر لے۔
تنخواہ داروں کے ہوش اڑانے کے بعد اب باری ہے کاروباری سیل ککڑوں کی۔وہ کاروباری مرغے جو سالانہ پندرہ کروڑ سے کچھ اوپر کماتے ہیں ، وہ دیں گے ٹیکس ایک فیصد اپنی آمدن کا۔ جو کماتے ہیں بیس کروڑ سے اوپر، وہ دیں گے دو فیصد، پچیس کروڑ سے اوپر والوں کے لیے ٹیکس ہے تین فیصداور تیس کروڑ روپے سالانہ سے اوپر کمانے والوں کے لیے ٹیکس ہے جی چار فیصد۔
مزا آیا؟ ابھی کدھر اور تو سن لو بھائی۔
ملک کے تیرہ قسم کے الگ الگ بڑے شعبہ جات پر دس فیصد سپر ٹیکس بھی عائد کیا گیا ہے۔ یہ شعبہ جات ہیں:
• سیمنٹ
• سٹیل
• چینی
• تیل اور گیس
• کھاد
• ایل-این-جیٹرمنلز
• ٹیکسٹائیل
• بینکنگ
• گاڑیاں
• بوتلیں شوتلیں
• کیمیکلز
• ہوائی سفر کی خدمات دینے والی کمپنیاں
یہ تیرہ کے تیرہ شعبہ جات وہ ہیں جو ملک میں ذرا کھل کھلا کے کماتے ہیں اور امیر ترین افراد انہی میں ہیں۔حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ اشرافیہ ہے ، اور ان پر جتنے چاہے مرضی ٹیکس لگالیں۔ کم از کم حکومتی اشتہار تو اسی قسم کے ہیں۔ ذرا دیکھیں:
لیکن پتہ ہے کیا؟ ٹیکس وہ بچہ ہوتا ہے جس کی ماں عام عوام ہوتی ہے اور خواص ہوتے ہیں باپ۔ حکومت جیسے مرضی اسے چھیڑے بچہ دوڑ کر ماں ہی کے پاس جاتا ہے۔ آپ ٹیکسٹائل، تیل اور گیس، سیمنٹ سمیت ان میں سے بیشتر یا کم و پیش تمام کو دیکھ لیں۔ ان کے صارف کون ہیں؟ عام عوام۔ تو کیا خیال ہے ، یہ اپنا بوجھ عوام پر تو منتقل نہیں کریں گے ناں!
آخر میں آپ کو خوش خبری دیتا چلوں کہ پٹرول پر بھی فی لیٹر حکومت نے پچاس روپے تک لیوی کی مد میں ٹیکس وصولنے کا سوچا ہے۔ ابھی حکومت لیوی کی مد میں کوئی روپیہ نہیں وصول کر رہی۔ ایل پی جی گیس، جو سردیوں میں عام شہریوں کے چولہے جلائے گی اور سردیوں گرمیوں رکشے والوں کے رکشے دوڑائے گی،اس پر بھی فی ٹن تیس ہزار روپے وصولی کرنے کا حکومت نے سوچا ہے۔
بہادر عوام، جاگتے رہنا ہم پہ نہ رہنا!