دنیا کا سب سے بڑا سپر کولائیڈر اب چین میں
خبر ہے کہ چین دنیا کا سب سے بڑا سپر کولائیڈر تیار کرنے جارہا ہے۔ چینی ماہرین کا ڈیزائن کردہ یہ سپر کولائیڈر، سوئیٹزر لینڈ میں ”سرن “(CERN)کی زیر نگرانی تعمیر کئے گئے 27کلومیٹر محیط کے لارج ہیڈرون کولائیڈر (LHC) سے تقریباََ تین گنا بڑا یعنی 80کلومیٹر محیط کا حامل ہوگا۔
چین عالمی معیشت میں تو اپنا ڈنکا بجا چکا ہے۔۔۔لیکن اب سائنس کے میدان میں بھی یورپ اور امریکہ کی اجارہ داری کو چیلنج کرنے جارہا ہے۔کیا آپ کو معلوم ہے کہ کائنات کا آغاز کیسے ہوا تھا؟ کائنات کا سب سے چھوٹا ذرا کون سا ہے؟ اس بارے میں تحقیق کرنے والے طاقت ور مشین کس ملک میں قائم ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ مشین کیسے کام کرتی ہے؟ چین اس کے مقابلے میں کتنی بڑی مشین بنانے جارہا ہے۔۔۔؟ جانیے چین میں دنیا کے سب سے بڑے سپر کولائیڈر کی تیاری کے بارے میں خصوصی رپورٹ
یہ کولائیڈر مشین کیا ہے؟
ذراتی اسراع گر(کولائیڈر) ایسی طاقتور مشین ہوتی ہے جس میں زیر ایٹمی ذرات (مثلا پروٹون یاالیکٹرون) کو بہت زیادہ توانائی پر حرکت دے کر باہم ٹکرایا جاتا ہے۔ اس ٹکرائو کے نتیجے میں نئے ذرات پیدا ہوتے ہیں جن کے باریک بین مشاہدے کی مدد سے بنیادی ترین ذرات کی ماہیت کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس طرح سائنسدان دراصل بگ بینگ کے فورا ََ بعد کی کائنات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یعنی جب مادے کی انتہائی بنیادی ترین ذرات بننا شروع ہوئے تھے۔ اس وقت سوئیٹزرلینڈ میں واقع "لارج ہائیڈرون کولائیڈر" دنیا کا سب سے طاقتور ذراتی اسراع گر ہے۔ لیکن اب چین نے اس سے بھی زیادہ طاقتور سپر کولائیڈر کی تیاری شروع کر دی ہے۔
چین سائنس کی دنیا کا چودھری بننے جارہا ہے
چین عالمی معیشت پر اس وقت کسی جن کی طرح چھایا ہوا ہے ۔ مصنوعات ، اسلحہ سازی اور خلائی سائنس میں تیز رفتار ترقی کے بعد اس نے جدید طبیعیات کے میدان میں بھی اپنی اجارہ داری قائم کرنا شروع کر دی ہے۔ تازہ اطلاع کے مطابق ، اب چین نے ذراتی طبیعیات (پارٹیکل فزکس)کے حساس میدان میں یورپی تسلط ختم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے اور اس سلسلے میں دنیا کے سب سے بڑے ذراتی اسراع گر/تصادم گر کی تعمیر کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ چینی سائنسدان ایک ایسے ذراتی اسراع گر/تصادم گر (Particle smashing collider )کی تعمیر شروع کر رہے ہیں جو ایک شہر کا احاطہ کر سکے گا۔
چین میں دنیا کاسب سے بڑے سپر کولائیڈر کتنا بڑا ہوگا؟
چینی ماہرین کا ڈیزائن کردہ یہ سپر کولائیڈر، سوئیٹزر لینڈ میں ”سرن “(CERN)کی زیر نگرانی تعمیر کئے گئے 27کلومیٹر محیط کے لارج ہیڈرون کولائیڈر (LHC) سے تقریباََ تین گنا بڑا یعنی 80کلومیٹر محیط کا حامل ہوگا۔ اسے ”سرکلر الیکٹرون پوزیٹرون کولائیڈر (CEPC) کا نام دیا گیا ہے جبکہ اس کے دائروی محیط کے اندر جو شہر آباد کیا جائے گا اسے ”چائینز ایکسیلیریٹر کمپلیکس“ کا نام دیا گیا ہے۔
اس عظیم الشان منصوبے کا ابتدائی ڈیزائن چین کے بہترین ذراتی ماہرین طبیعیات کے زیر نگرانی تیار کیا جا رہا ہے اور ان ماہرین کو امید ہے کہ یہ منصوبہ چین کو خالصتاََ سائنسی بنیادوں پر بھی ایک گلوبل سپر پاور کے طور پر متعارف کرا سکے گا۔
یہ کولائیڈر کمپلیکس ابتدائی طور پر الیکٹران اور ضد الیکٹران (پوزیٹران) کو ٹکرانے کے لئے ڈیزائن کیا جا رہا ہے جبکہ بعد ازاں اس میں بھاری پروٹانوں کو بھی انتہائی زیادہ توانائی پر باہم ٹکرایا جائے گا۔ ماہرین کو امید ہے کہ اس ٹکرائو کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ذرات کے مطالعے سے کائنات کے ابتدائی ماحول کو زیادہ بہتر پر سمجھنے میں مدد ملے گی۔ یعنی اس منصوبے کے ذریعے ماہرین کا مقصد مادے ، توانائی اور زمان و مکاں کی پیدائش کے عمل کو بہتر طور پر سمجھنا ہے۔
چین کا سپر کولائیڈر۔۔سرن کے کولائیڈر سے کیسے مختلف ہے؟
چین کا یہ عظیم الشان ذراتی تصادم گر ، سرن کے لارج ہیڈرون کولائیڈر کے مقابلے میں ذرات کو توانائی کی زیادہ بلند سطح پر پہنچانے کی صلاحیت کا حامل ہو گا اور اس طرح ماہرین طبیعیات کو ذرات کی ایسی نئی اقسام دریافت کرنے میں مدد ملے گی جو اسٹینڈرڈ ماڈل کی مزید بہتر وضاحت فراہم کر سکیں گی۔ نیز یہ منصوبہ اضافی جہتوں (لارج ایکسٹرا ڈائمنشنز) کی دریافت اور ہگز بوسون (گاڈ پارٹیکلز جو کائنات کے اولین ذرات کے طور پر جانے جاتے ہیں)کی باریک بیں وضاحت کے ساتھ ساتھ سپر سمٹری (تشاکلی ساخت ) اور تاریک مادے کی حیرت انگیز توجیہات بھی پیش کر سکے گا۔
صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے
چینی ماہرین کے مطابق، اس منصوبے کے ڈیزائن، تعمیر اور تجربات کے لئے دنیا بھر کے سائنسدانوں کے خوش آمدید کہا جائے گا۔ امید کی جارہی کہ تجرباتی طبیعیات میں مہارت رکھنے والے سینکڑوں امریکی سائنسدان اس منصوبے میں شامل ہونے میں دلچسپی لیں گے کیونکہ امریکی حکومت بڑے ذراتی اسراع گر/تصادم گروں کی تعمیر کے معاملے میں مخمصے کا شکار ہے۔ چند برس قبل جب امریکی حکومت نے بے پناہ اخراجات کی وجہ سے سپر کنڈکٹنگ سپر کولائیڈر (SCSC) کی تیاری سے انکار کیا تھا تو بہت سے امریکی سائنسدانوں نے یورپ کے لارج ہیڈرون کولائیڈر کا رخ کر لیا تھا ۔ امریکی حکومت تاحال اس سلسلے میں کسی نئے منصوبے کا ارادہ نہیں رکھتی ، ا س لیے چین کو امید ہے کہ انھیں اپنے منصوبے کے لئے سینکڑوں بہترین امریکی ماہرین دستیاب ہو جائیں۔