سنو

سنو نہ جاناں حسیں ہوں لیکن
میں سادگی کے تمام رنگوں کو چاہتی ہوں
میں اس بدن سے بہت ہی نزدیک ایک روح گداز رکھتی ہوں جس کی خاطر
میں سنگ ہونے کے اک سفر پے رواں دواں ہوں
کبھی تو اس راستے میں آؤ غبار دیکھو
میں جس کے پردے سے چھن رہی ہوں
مرے بدن سے ہزار لمحوں پہ ایک لذت جو مضطرب ہے
کبھی اسے آشکار دیکھو
میں تیرے لمسوں کے واسطے تو نہیں بنی ہوں
اثاثہ تیرا ہوں وہ اثاثہ
جو اپنی قیمت نگاہ یوسف سے تولتا ہے
جو روح آدم سے بولتا ہے