سنی کسی نے کہاں میرے انتظار کی بات
سنی کسی نے کہاں میرے انتظار کی بات
ہر اک زباں پہ رہی اختیار یار کی بات
ابھی ہے وقت چلو رابطہ بحال کریں
دلائیں یاد اسے عہد پائیدار کی بات
ابھی ہیں کرب کے کچھ اور مرحلے باقی
ابھی چلی ہی کہاں ہے مرے دیار کی بات
یہاں شجر کا شجر داؤ پر ہے نادانو
تمہارے لب پہ وہی شاخ و برگ و بار کی بات
بڑا بلیغ اشارہ تھا اس کی باتوں میں
ہمارا ذکر تھا اور راہ کے غبار کی بات
کسی کے دل کے اجڑنے کی بات ہے انورؔ
خزاں کی بات نہیں ہے نہیں بہار کی بات