سنا کے اپنے عیش تام کی روداد کے ٹکڑے

سنا کے اپنے عیش تام کی روداد کے ٹکڑے
اڑا دوں گا کسی دن چرخ کی بیداد کے ٹکڑے


اسیری کو عطا کر کے اسیری کا شرف ہم نے
اڑا ڈالے خود اپنی فطرت آزاد کے ٹکڑے


کہاں کا آدمی انسان کیسا ماحصل یہ ہے
کہیں اشخاص کے پرزے کہیں افراد کے ٹکڑے


تباہی کے مزوں سے بھی گئے اب واۓ محرومی
سمیٹوں گا کہاں تک حسرت برباد کے ٹکڑے


یہ سینہ تلخ یادوں کا خزینہ ہی سہی لیکن
بہت چبھتے ہیں دل میں اک نکیلی یاد کے ٹکڑے


تم اچھے ہی سہی میرا برا ہونا بھی ہے برحق
کہ ہم سب ہیں کسی مجموعۂ اضداد کے ٹکڑے


ہمیں لخت جگر کھانے کو ہرگز کم نہ تھا اخترؔ
مگر قسمت میں لکھے تھے جہان آباد کے ٹکڑے