سنا ہے ان کے لب پر کل تھا ذکر مختصر میرا
سنا ہے ان کے لب پر کل تھا ذکر مختصر میرا
تصور دے رہا ہے طول اسی کو کس قدر میرا
یہ دل سوزیٔ درد آدمیت کیا قیامت ہے
کسی کی آنکھ سے آنسو بہیں دامن ہو تر میرا
تصور میکدے کا مشترک ہو کس طرح ناصح؟
خرد ساغر شکن تیری جنوں پیمانہ گر میرا
یہی عالم رہا گر شوق کی آئینہ بندی کا!
تو گم ہو جائے گا جلووں میں شوق خود نگر میرا
خدا را کچھ تو ناز سر بلندی رحم کر مجھ پر
ترے بار گراں سے اب جھکا جاتا ہے سر میرا
الجھ کر رہ گئی تھی عقل تو پردے کے تاروں میں
بڑی مشکل سے کام آیا جنون پردہ در میرا
نہیں پرویزؔ کچھ اپنے ہی اشکوں کی نمی اس میں
بنا ہے آستین دوستاں دامان تر میرا