سن کر میں جرم چپ تھا گناہ گار کی طرح

سن کر میں جرم چپ تھا گناہ گار کی طرح
لکنت زباں میں آ گئی مے خوار کی طرح


وہ کیسی صبح تھی کہ طلوع سحر کے بعد
سورج کا چہرا لگتا تھا بیمار کی طرح


ہاں اس کی داستان بہت دل خراش تھی
خاموش تھا جو سایۂ دیوار کی طرح


رکنے کا نام بھی نہیں لیتے تھے وہ کبھی
اہل جنوں تھے وقت کی رفتار کی طرح


مقتل سے تیغ دار و رسن سے صلیب سے
مجھ کو ہے پیار کوچۂ دل دار کی طرح


ہم تیرہ بخت آپ ہی کہیے کہاں سے لائیں
شوکت جلال شان وہ سرکار کی طرح


اوپر سے دیکھنے میں ہیں مانند کوہ ہم
اندر سے ایک ریت کی دیوار کی طرح


اے رب ذو الجلال اماں پاؤں تو کہوں
یہ عمر کٹ گئی کسی نادار کی طرح