سلگ رہا ہے کوئی شخص کیوں عبث مجھ میں
سلگ رہا ہے کوئی شخص کیوں عبث مجھ میں
بجھے گا کیسے ابھی شعلۂ نفس مجھ میں
عجیب درد سا جاگا ہے بائیں پسلی میں
عجب شرار طلب سا ہے پیش و پس مجھ میں
میں شاخ شاخ سے لپٹوں شجر شجر چوموں
پنپ رہی ہے عجب لذت ہوس مجھ میں
نہ کوئی نقش یقیں ہے نہ کوئی عکس گماں
دھواں دھواں ہے ابھی سے نیا برس مجھ میں
نہ زیست کی کوئی ہلچل نہ موت ہی کی فغاں
ہے کہر کہر سا اک شہر بے حرس مجھ میں
بس اک پرندہ سا پر پھڑپھڑا کے چیختا ہے
بہت اداس ہے اب موسم قفس مجھ میں
کبھی تو گزرے ادھر سے بھی تند موج ہوا
ہیں جمع کتنے ہی موسم کے خار و خس مجھ میں