سکوت شب میں دل داغ داغ روشن ہے
سکوت شب میں دل داغ داغ روشن ہے
کہ زخم زخم نہیں ہے چراغ روشن ہے
ابھی جنون سلامت ہے میرا جان غزل
کرن کرن ہے تصور دماغ روشن ہے
عجب مجاز و حقیقت ہے خطۂ دنیا
جہاں پہ ہنس تو میلے ہیں زاغ روشن ہے
وصال یار کے لمحے ہیں عارضی لیکن
مشام جاں میں مگر سبز باغ روشن ہے
ابھی ہے دشت میں زندہ فراق لیلائی
اگرچہ ختم فسانہ سراغ روشن ہے
غزال آنکھیں ہیں ایسی کہ کیا کہوں ذاکرؔ
گلاب چہرے پہ دو دو ایاغ روشن ہے