سکون تنہائی

کنج تنہائی میں ہم ایسے پریشاں بھی نہیں
کوئی محرومیٔ یاراں بھی نہیں


تیرے جانے سے اکیلا تو ہوا ہوں لیکن
تیرے جانے سے مرا درد فروزاں بھی نہیں


تو نے چھوڑا تو زمانے سے بھی رشتہ ٹوٹا
عشق کا غم ہے کوئی اب غم دوراں بھی نہیں


دل کو سمجھاتا ہوں کرتے ہو شکایت کس سے
مہرباں ہوگا کوئی اس کا اب امکاں بھی نہیں


گھر کی خاموشی فضاؤں میں اداسی ہے مگر
اس اداسی میں کوئی وحشت ویراں بھی نہیں


تو جو آیا مری دنیا میں تلاطم آیا
تو نہیں ہے تو مرا چاک گریباں بھی نہیں


کیسی تکرار ہے حجت ہے شکایت کیسی
اس کہانی میں کوئی زود پشیماں بھی نہیں


باعث درد ہوئی قربت یاراں اکثر
اب مجھے آرزوئے صحبت جاناں بھی نہیں


پھر سے کرنا ہے سفر مجھ کو نئی راہوں پر
نئی منزل کے لیے راہ گلستاں بھی نہیں


تیرے ہی دام محبت میں گرفتار رہا
محفل غیر میں امید مہرباں بھی نہیں


تجربوں نے یہ سکھایا ہے کہ ہستی میں امیرؔ
مرہم زخم نہیں درد کا درماں بھی نہیں