سخن میں ڈوب کر افکار کے اندر سے نکلی ہوں

سخن میں ڈوب کر افکار کے اندر سے نکلی ہوں
بڑی مشکل سے میں کردار کے اندر سے نکلی ہوں


یہ کیسی تان میں بھر کر اتارا خود کو نغمے میں
ڈھلی سر میں نہ میں جھنکار کے اندر سے نکلی ہوں


مری مرضی بھی شامل جب ہوئی ہے اس کی مرضی میں
میں ضد کو توڑ کر انکار کے اندر سے نکلی ہوں


کہیں بنیاد میں شامل ہوا ہوگا لہو میرا
میں مٹی ہو کے جس دیوار کے اندر سے نکلی ہوں


کیا تخلیق اس نے مجھ کو کس معیار پر رکھ کر
ڈھلی فن میں نہ میں فن کار کے اندر سے نکلی ہوں


مجھے چھانٹا ہے جانے کس نے رکھ کر کس کسوٹی پر
میں کیا جانوں میں کس معیار کے اندر سے نکلی ہوں


کوئی بھی قوس اس تصویر کی کھلتی نہیں مجھ پر
میں کن ہاتھوں سے کس پرکار کے اندر سے نکلی ہوں


سحرؔ آساں نہ تھا اپنے مقابل آ کے خود لڑنا
یہی ہے جیت میری ہار کے اندر سے نکلی ہوں