چینی صدر شی پنگ کے تیسری بار بلا مقابلہ منتخب ہونے کی اصل وجہ کیا ہے؟
شی جی پنگ مزید طاقتور ہو کر اینٹی امریکہ پالیسیاں بناتے اور دنیا میں پھیلاتے نظر آ سکتے ہیں۔
شی جی پنگ مزید طاقتور ہو کر اینٹی امریکہ پالیسیاں بناتے اور دنیا میں پھیلاتے نظر آ سکتے ہیں۔
عمران خان کا جادو ایک بار پھر سر چڑھ کر بولا۔ عمران خان کی اپنے جھوٹے یا سچے بیانیے پر عوامی مہم کا توڑ پوری پی ڈی ایم اپنا پورا زور لگا کر بھی نہ کر پائی۔ نہ کوئی آڈیو لیک، نہ کوئی سیاسی داؤ اور نہ کچھ اور ان کے کام آیا۔
دوست محمد مزاری سپریم کے مئی والے فیصلے کی روشنی میں ووٹ نہیں گنتے۔ اور سوالات کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جن کے جواب کے لیے کہانی ابھی جاری ہے۔
سیٹ جہاں مرضی جائے رہے گی اپنے ہی پاس۔ اسے کہتے ہیں الیکٹیبلز کی سیاست!
ہم سب ان تمام نعمتوں کو جانتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ہم غریب ہیں۔ دنیا میں بے وقعتی سی محسوس ہوتی ہے۔ آج کی تاریخ میں جب میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں، ایف اے ٹی ایف کا اجلاس جاری ہے۔ وہی سبکی ہے اور وہی عالمی طاقتوں کی دھونس۔ یہاں سے خوار ہو کے نکلیں گے تو ہاتھ پھیلا کر آئی ایم ایف کے سامنے کھڑا ہونا ہوگا۔
پاکستان کی سیاست ایک بار پھر احتجاج اور جلسے جلوس سے ہوتی ہوئی لانگ مارچ تک جاپہنچی ہے۔ کیا یہ لانگ مارچ کی روایت پاکستان تحریک انصاف کی اختراع ہے؟لانگ مارچ کی اصطلاح پہلی بار کس نے استعمال کی؟ پاکستان میں سب سے پہلا لانگ مارچ کب ہوا؟ کون سے لانگ مارچ حکمرانوں کے لیے ڈروانا خواب ثابت ہوئے؟ اور کون سا لانگ مارچ شروع ہونے سے پہلے دم توڑ گیا اور کس نے کسی کا دَم نکال دیا؟ آئیے آزادی سے اب تک پاکستان میں ہونے والے لانگ مارچ کی ٹائم لائن (سال وار) پر نظر ڈالتے ہیں۔
پاکستان میں موسم بھی شدید ہے اور سیاسی پارہ بھی بلند ہے۔ 25 مئی کو پی ٹی آئی اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے جارہی ہے۔۔۔۔لیکن عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔۔۔طالب علم کے لیے ایک بری خبر۔۔۔موبائل فون کو ایک طرف رکھ دیجیے اور تعلیمی ادارے بند رہیں گے۔
آج کل ریاست پاکستان میں پتہ نہیں کا دور دوراں ہے۔ کون کیا کرنے جا رہا ہے، کیا کر رہا ہے، کیا ہوگا؟ کیسے ہوگا؟ کیوں ہوگا؟ کون کرے گا؟ کس نے کیا ہے؟ کیسے کیا ہے؟ کب کیا ہے؟ کس کے ساتھ مل کے کیا ہے؟ کون پیچھے ہے؟……… کچھ پتہ نہیں۔ خیر! نتیجہ اس سب کا صاف ہے۔ غیر یقینی ہے، عدم اعتماد ہے، عدم تحفظ ہے، سراسیمگی ہے اور یوں عدم استحکام ہے۔
لسانیات کی بحث میں کہا جاتا ہے آواز سے حرف اور حرف سے لفظ بنتا ہے۔ لیکن یہ سفر اتنا آسان نہیں ہوتا۔۔۔آگ کا دریا ہے اور ڈوب کرجانےکے مترادف ہے۔ہر لفظ طویل سفر کرتے موجودہ صورت تک پہنچتا ہے۔لیکن یہ سفر یہاں بھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ آج ہمارا مقصد کوئی دقیق لسانی بحث کرنا نہیں ہے۔آج چند ایسے الفاظ کا تذکرہ کریں گے جو سیاسی وسماجی مباحث میں بہت اہم ہیں لیکن احتیاط نہ برتی جائے تو "سیاست" کی نذر ہوسکتے ہیں۔
سیاسی وابستگیاں اپنی جگہ لیکن انہیں اس درجہ بڑھا لینا کہ یہ وابستگی سے بڑھ کر عصبیت بن جائے ،اور عصبیت بھی ایسی کہ جس کی وجہ سے ہمارے رشتے ناتے اور تعلق سب داؤ پر لگ جائیں، کسی طور بھی درست نہیں۔ہماری کچھ وابستگیاں ان سیاسی وابستگیوں سے بڑھ کر بھی ہیں۔ ہم اپنی نام نہاد جذباتیت کی رو میں بہہ کر ان کو بھی بھول جاتے ہیں۔