کچھ باتیں کیوں بہت اہم ہوتی ہیں؟
عظیم لوگوں کی باتیں بھی عظیم ہوتی ہیں اور ان باتوں کو یاد رکھنا بہت ضروری ہے
عظیم لوگوں کی باتیں بھی عظیم ہوتی ہیں اور ان باتوں کو یاد رکھنا بہت ضروری ہے
سفرِ حج: ایک ایسے عاشقِ صادق کی کہانی جسے اپنے خدا سے ملاقات کی جلدی تھی۔۔۔۔حج ہے ہی زیارت کی پیاس بجھانے کا نام۔۔۔اپنے رب کے گھر کی زیارت۔۔۔!(دوسرا حصہ)
اسے یوں لگا جیسے زمین نے اسے جکڑ لیا ہو ۔ اب اس کے لیے اپنے پیروں کو حرکت دینا ناممکن سا ہو گیا تھا ۔ رفتہ رفتہ اس کا شعور تاریکی میں ڈوبنے لگا۔۔۔! ایک ایسے عاشقِ صادق کی کہانی جسے اپنے خدا سے ملاقات کی جلدی تھی۔۔۔۔حج ہے ہی زیارت کی پیاس بجھانے کا نام۔۔۔اپنے رب کے گھر کی زیارت۔۔۔!
اردو تدریس کو دل چسپ کیسے بنایا جاسکتا ہے۔۔۔کیا اردو پڑھانا مشکل امر ہے۔۔۔کمرا جماعت کے باہر کیا کچھ ہے جو اردو سیکھنے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔۔۔ جیسے اشتہارات، نیوز بلیٹن، ڈرامے، سائن بورڈز۔۔۔
بارش برس رہی تھی ۔ آسمان پر بادل مزید گہرے ہو رہے تھے ۔۔۔ بہت گہرے۔۔۔اور بارش کی بوندیں اس کی بند آنکھوں کے در کھٹکھٹا رہی تھیں۔لیکن وہ ۔۔۔
اردو ہماری قومی زبان ہے۔ ہم اپنی زبان کی ترویج اور فروغ کے لیے کتنے سنجیدہ ہیں؟ اسکولوں میں اردو کے اساتذہ اپنا حقیقی کردار ادا کررہے ہیں؟ اردو اساتذہ کو ہمارے ہاں "دوسرے درجے کا شہری" سمجھا جاتا ہے۔ بچوں میں اردو زبان سے محبت اور رغبت کیسے دلائی جائے؟ آج آپ کو ایسی تنظیم سے واقف کرواتے ہیں جو اردو کی چاشنی گھولنے میں مصروفِ عمل ہے۔ کیا آپ کو اس کا "پتا بتا" دیا جائے؟
جو قوم اپنے محسنوں کو یاد نہ رکھے وہ قوم جلد تاریخ کا حصہ بن جاتی ہے۔بچوں کو تاریخ سے کیسے آشنا کروایا جاسکتا ہے؟ کیا اردو ادب میں بچوں کے لیے تاریخی کہانیاں تخلیق کی جارہی ہیں؟ ادب کے ذریعے ان کو پاکستان کی تاریخ اور اپنے ہیروز سے کیسے واقف کروایا جائے ؟ بچوں کے لیے پاکستانی ہیروز سے متعلق تصویری کہانیوں کی کتاب کا تعارف پڑھیے۔
زندگی چھوٹی چھوٹی کہانیوں کا مجموعہ ہے۔۔۔کوئی کہانی کا حصہ ہے تو کوئی کہانی گو۔۔۔کوئی کہانیاں بُن رہا ہے تو کوئی کہانی کی تلاش میں ہے۔۔۔یہ افسانہ بھی ایک ایسے کہانی کار کی کہانی ہے جو کہانیاں لکھتا لکھتا خود کہانی بن چکا تھا۔
کیا زمانے تھے جب حُسن کے معیارات اور عشق کے معاملات کے بیان کے لئے بھی شاعر کتاب کے استعارے کا سہارا لیتے تھے۔کبھی خوبصورت چہرے کو کتابی چہرہ کہہ دیا تو کبھی محبوب کو غزل کی کتاب سے تشبیہ دے دی ۔
رات کے آخری پہر دروازے پر دستک ہوئی۔ اپنے بیٹے کا پیٹ پالنے کی خاطر دوسروں کے گھر کام کر کے تھکی ماندی پونم اٹھی اور دروازے کی طرف جاتے ہوئے بولی : "ضرور یہ بلونت ہوگا" اور دروازہ کھول دیا۔ شراب کے نشے میں دھت بلونت سنگھ دروازہ کھلتے ہی نیچےگر گیا وہ زخمی تھا اورپولیس اس کا پیچھا کر رہی تھی ۔اس کی بائیں پنڈلی پر گولی لگی تھی۔ زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے وہ بے ہوش ہوگیا۔ ایشر سنگھ بھی جاگ چکا تھا۔ اپنے باپ کو اس حالت میں دیکھ کروہ پریشان ہوگیا۔