روس یوکرائن جنگ: کیا اب روس اور نیٹو براہ راست مدمقابل ہونے جارہے ہیں؟
یوکرائن کے صدر الیگزنڈر زیلنسکی نے اب سے کچھ دیر پہلے نیٹو کی رکنیت کے لیے درخواست کر دی ہے۔
یوکرائن کے صدر الیگزنڈر زیلنسکی نے اب سے کچھ دیر پہلے نیٹو کی رکنیت کے لیے درخواست کر دی ہے۔
اقتصادی ماہرین اس بات کو تسلیم کررہے ہیں کہ آنے والے چند مہینوں میں پوری دنیا میں 2008 جیسا معاشی بحران یا کساد بازاری آ سکتی ہے۔
کیا آپ انٹرنیشنل سپیس اسٹیشن کے بارے میں جانتے ہیں؟ کیا یہ امریکہ کی ملکیت ہے؟ اب تک کتنے لوگ اس خلائی اسٹیشن کی سیر کرچکے ہیں؟ کیا آپ بھی خلا میں جانا چاہتے ہیں؟ اس منصوبے کے مقاصد کیا ہیں؟ یہ منصوبہ کب تک چلے گا؟ ان سوالوں کے جواب جاننے کے لیے اس تحریر کو پڑھیے۔
مجھے یاد ہے جب انہوں نے گروزنی کی مرکزی مارکیٹ پر بمباری کی تھی اور 150 افراد مارے گئے تھے۔ میں اس کے ایک دن بعد وہاں گیا تھا اور منظر بہت ہی ہلا دینے والا تھا۔ اس وقت لوگ وہاں سے لاشیں لے جا چکے تھے لیکن وہاں خون ہر طرف بکھرا تھا۔ خالی گلیا ں تھیں، ٹوٹی کھڑکیا تھیں اور ایک قاتل خاموشی تھی۔
کیوں یوکرائنی جو روسی افواج کا مقابلہ کر رہے ہیں، مغرب اور امریکہ کے ہیرو ہیں جبکہ اسی عمل کی وجہ سے تو فلسطینی دہشتگرد قرار دیے جاتے ہیں۔ کیوں یہ ممالک آج روس کے مقابلے کے لیے جدید اور جنگ کا پانسا بدل دینے والے ہتھیار بھیج رہے ہیں جبکہ فلسطین میں تو انہوں نے اس قسم کے ہتھیار اقابض اسرائیلی افواج کی امداد کے لیے بھیجے تھے۔
آج تک کوئی ایسا ماڈل ایجاد نہیں ہوا جس سے تنازعات پیدا کر کے عام عوام کا بھلا کیا جا سکے۔ جنگ چھڑتی ہے تو یہ کسی بھی صورتحال میں نیٹ لوزر ہی ہوتے ہیں۔ فائدہ کوئی اور اٹھاتا ہے۔ جنگ روکنے کے لیے ان فائدہ اٹھانے والوں کو لگام ڈالنا ہو گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا کون؟
جنگ شروع ہوتے ہی دنیا بھر کے بڑے معاشی اشاریےجمعرات کی صبح ہی گر کر گزشتہ کئی مہینوں میں اپنی کم ترین سطح پر آگئے ، جمعہ کو ان اشاریوں میں البتہ کچھ بہتری نظر آئی ہے لیکن اس کے باوجود امریکہ اور عالمی معیشتوں کے لیے سنگین خطرات بدستور موجود ہیں۔ مثال کے طور پر اگر اور کچھ نہیں تو، یوکرین پر ایک طویل حملہ تیل کی قیمتوں میں ایک ہوش ربا اضافہ کر سکتا ہے کیونکہ روس کی طرف سے دنیا کو کچھ ناگزیر سپلائی کو روکنے کے زیادہ امکانات ہیں ۔
31 جنوری کو سنا تھا کہ مالی نے فرانسیسی سفیر کو بہتر گھنٹوں میں جہاز پکڑ کر گھر جانے کو کہا تھا۔ اب فرانسیسی صدر اپنے فوجی بھی واپس بلانے کا اعلان کر رہے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ فرانس کے مفاد اب ساحل کے علاقے میں جہاں مالی ہے، کون دیکھے گا؟
یوکرائن میں بڑے پیمانے پر جنگ روس کے عالمی سیاست کے کھیل میں سخت طاقت استعمال کرنے کے انداز سے مطابقت نہیں کھاتی۔ جارجیا، شام، لبیا اور بڑی حد تک یوکرائن کی مثالیں اس بات کی غماز ہیں کہ روس ہمیشہ وہ پالیسی اپناتا ہے جو کم خرچ ہو۔ ہر موقعے پر روسی حکومت کو زمینی خطرات کا پوری طرح ادراک ہوتا ہے۔ اس نے ہمیشہ خاصی احتیاط کے ساتھ مالی منافعے کا تجزیہ کیا ہے اور ہمیشہ سخت طاقت کے استعمال کے اہداف محدود اور واضح رکھے ہیں۔
یورپ اس وقت اپنی گیس کی ضروریات کا تقریباً چالیس فیصد روس سے حاصل کرتا ہے۔ لیکن جب یہ بات جرمنی پر آتی ہے تو یہ عدد پچاس فیصد سے تجاوز کر جاتا ہے۔ جرمنی نیٹو کا ممبر ہے اور امریکی اتحادی ہے۔ لیکن اگر اس اتحاد میں ہونے کا حق ادا کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے تو بہت زور سے پیٹ پر ٹانگ پڑتی ہے۔ کیونکہ میاں روس ایک منٹ نہیں لگائیں گے جرمنی کی طرف آتی پائپ لائن کی گیس خالی کرنےمیں