مشرق وسطیٰ عالمی جنگ کے دہانے پر،ایران اسرائیل کشیدگی،کون کتناطاقتوراور کون کس کے ساتھ؟
اسرائیل کی پشت پر امریکہ اوربرطانیہ سمیت کئی دیگر اہم طاقتور ممالک ہیں تو ایران کے لیے ایک اہم بات اسرائیل کے قریب میں ایران کے حامی مضبوط گروپس کی موجودگی ہے۔
اسرائیل کی پشت پر امریکہ اوربرطانیہ سمیت کئی دیگر اہم طاقتور ممالک ہیں تو ایران کے لیے ایک اہم بات اسرائیل کے قریب میں ایران کے حامی مضبوط گروپس کی موجودگی ہے۔
بہت کم ہی قریب ذرائع جانتے تھے کہ حسن نصر اللہ کہاں رہتے تھے۔ حالیہ برسوں میں کم ہی لوگوں نے ان سے سخت حفاظتی اقدامات میں ملاقاتیں کی۔
جو ہمارے لوگوں کو روزانہ قتـل کرتی ہے وہ امریــکی ہتھیاروں سے لیس قابض فــوج ہے، اور غــزہ سے ملنے والے قیـدیوں کی لاشـیں بھی اسی صیــہونی بمبـاری کا نتیجہ ہیں۔"یہ بات واضح ہے کہ قیدی صیـہونی بمبـاری سے ہلاک ہوئے ہیں اور حمـاس کا ان کی موت سے کوئی سروکار نہیں
کیا امریکہ کے بعد اب برطانیہ بیتالمقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے جا رہا ہے؟ مصنف: فرقان احمد پچھلے ماہ سے خبریں گرم ہیں کہ برطانیہ کی حالیہ منتخب خاتون وزیرِاعظم لزٹرس نے بیت المقدس یعنی یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ ان کا یہ عندیہ نہ صرف برطانیہ کی اخلاقی شکست ہے بلکہ عالمی قوانین کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ عالمی روایات میں آپ کسی ملک کا دارالحکومت اس شہر کو تسلیم کرتے ہو جہاں آپ اپنے ملک کا سفارت خانہ کھولتے ہو۔
عالمی حالات پر نظر رکھنے والے ماہرین کے نزدیک ترکیہ اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات مکمل بحال ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ اس کی تاریخی، معاشی اور علاقائی سیاست کی بنیاد پر کھڑی ٹھوس وجوہات ہیں ۔
پندرہ برس سے زائد قید خانے کی صورت غزہ کی پٹی میں بیس لاکھ سے زائد زندگی جھیلتے انسانوں کو ایک بار پھر اسرائیلی درندگی کی لہر کا سامنا ہے۔ یہ حملے کیا اسلامی جہاد کی وجہ سے ہورہے ہیں یا ان کے پس پردہ اسرائیل کی اپنی انتخابی سیاست ہے؟
اسرائیل کا دورہ کرنے والے احمد قریشی کون ہے؟ وہ اسرائیل کیا کرنے گئے تھے؟ وہ اسرائیل کیسے پہنچے؟ کیا یہ دورہ پاکستانی حکومت کی اجازت سے ہوا؟ پاکستانی نژاد امریکی وفد اسرائیل کیا کرنے گیا تھا؟ احمد قریشی کو نوکری سے کیوں ہٹایا گیا؟
وہ لوگ جن کے فون اچانک "آف لائن" ہو جائیں یا وہ لوگ جو بہت زیادہ بجلی استعمال کریں ، IJOP خود بخود انہیں شناخت کر دیتا ہے اور انہیں پولیس تفتیش کے لیے بلا لیتی ہے۔ پھر ان میں سے کچھ کو بعد میں "سیاسی تعلیم" کے لیے حراست میں لے کر قید کر دیا جاتا ہے۔
اس سمٹ سے دنیا کو بہر حال پیغام چلا گیا کہ عربوں اور اسرائیل کے مابین پیار کی پینگیں بڑھ رہی ہیں۔ اس پر پاکستان جیسے ممالک سوچ میں ضرور پڑ گئے ہیں کہ ہم کیا کریں۔ حکومت پاکستان جو بھی کرے ہمارا موقف تو اس سب پر وہی ہے جو ہمارے محسن لیڈر قائد اعظمؒ کا تھا۔
نہ تو ہم نے خود کوئی ایسا قدم اٹھایا ہے جس کے تحت ہم ایسا پلیٹ فارم تشکیل دیتے جو ہماری پالیسیوں کے مطابق چلتا۔ اس پر ہماری بات ہوتی۔ ہماری اقدار فروغ پاتیں۔ ہمیں بھی آزادی رائے کا حق ہوتا۔ ہم کسی آزادی کے متوالے کو دہشت گرد گرداننے پر مجبور نہ ہوتے۔ سانسیں ہماری بھی بحال ہوتیں۔ لیکن افسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔