نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی: علامہ اقبال کی طالب علمی کے زمانے کی غزل
علامہ اقبال کی طالب علمی کے دور کی غزل
علامہ اقبال کی طالب علمی کے دور کی غزل
اقبال کے نزدیک بلند پروازی کا مطلب انسان کا عظیم ہونا ہے۔ اقبال کی نظر میں عظمت انسانی یہ ہے کہ انسان خود شناس ہو، اسے عرفان ذات حاصل ہو، اور وہ اپنی توانائیوں کو مثبت کاموں میں خرچ کرتے ہوئے ذاتی اور قومی فلاح کا ضامن بنے۔ جبکہ تکبر، کینہ اور طمع انسان کی شخصی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ ڈالتے ہیں۔ انسان دنیا اور دوسرے انسانوں میں گم ہوکر، عرفان ذات حاصل کرنے سے محروم ہوجاتا ہے۔ پس انسان کی پرواز میں کوتاہی انہی جذبات سے پیدا ہوتی ہے۔ یہی جذبات جب ایک معاشرے کا حصہ بن جائیں زوال مقدر بن جاتا ہے
چھوڑیے حضور ، اقبال کی کیا بات کریں گے ، اس کی ایک مسجد قرطبہ اور ایک ساقی نامہ ہی بیشتر شعرا کے سارے کلا م پر بھاری ہیں ۔ اقبال کے نفس کی تاب نہ ہم لا سکے نہ آپ ، سو کوئی برابری کا ، اپنے جوڑ کا کوئی فرد دیکھ لیتے ہیں ناں مشقِ ستم کے لیے ، کہ ؛ دگر از یوسفِ گم گشتہ سخن نتواں گفت ؛ تپَشِ خونِ زلیخا نہ تُو داری، و نہ من
ہمارے نصاب میں اقبال کو جس طرح شامل کیاگیا،اس سے طالب علم صرف دو باتیں جان پاتا ہے۔ایک یہ کہ اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا۔دوسرا یہ کہ وہ شاعر تھے۔ اقبال اس کے علاوہ بھی کچھ تھے،وہ ساری زندگی اس سے بے خبر رہتا ہے۔کیا انہوں نے نثر میں بھی کچھ لکھا؟ ان کے خطبات کی اسلامی فکر کی تاریخ میں کیا اہمیت ہے،وہ کبھی نہیں جان سکتا۔علامہ اقبال نے جب علی گڑھ کے طلبہ کے سامنے یہ خطبات پڑھے تو ڈاکٹر سید ظفرالحسن،صدر شعبہ فلسفہ نے اپنے خطبہ صدارت میں اپنے تاثرات بیان کیے۔
سپین، فرانس، جرمنی، اٹلی، انگلستان، مصر، فلسطین، افغانستان اور برٹش انڈیا کے طول و عرض کے اسفار اور اعلیٰ سیاسی و علمی شخصیات سے ملاقاتیں اور عالمی کانفرنسز میں شرکت ۔۔۔ اس دور میں جب ہوائی جہاز عام نہیں تھے ۔۔۔ یہ بھی بچوں کا کھیل نہیں تھا۔ کابل یونیورسٹی کے قیام سے موتمرِ عالمِ اسلامی اور الہٰ آباد اجلاس سے گول میز کانفرنس تک ۔۔۔ اقبال کہاں کردار کے غازی نظر نہیں آتے ؟
میں نے لمبا سفر کیا اور چاند سے پوچھا، ۔ تیرے نصیب میں سفر ہی سفر ہے لیکن کوئی منزل بھی ہے کہ نہیں ۔ جہان تیری چاندنی سے سمن زار بنا ہوا ہے ۔ (لیکن ) تیرے اندر جو داغ ہے اس کی چمک دمک کسی دل کی وجہ سے ہے یا نہیں ہے؟ اس نے ستارے کی طرف رقیبانہ نظروں سے دیکھا اور کچھ نہ کہا۔
شکوہ میں اقبال نے امت مسلمہ کے درخشاں ماضی کی جھلکیاں دکھاتے ہوئے ان کی موجودہ حالت کا دوسری اقوام سے موازنہ کیا ہے، پھرمسلمانوں کی اس بے بسی و بے چارگی کا واسطہ دے کر خدا سے پوچھا ہے کہ اہلِ توحید پر اب وہ پہلے جیسا لطف و کرم کیوں نہیں، جبکہ وہ آج بھی خدا کے نام لیوا ہیں اور اُس کے رسول کے پیروکار ہیں ،آج بھی اُن کے دلوں میں دینِ اسلام کے لیے زبردست جوش و جذبہ موجود ہے۔
میرے مِٹنے کا تماشا دیکھنے کی چیز تھی ؛ کیا بتاؤں ، اُن کا میرا سامنا کیونکر ہُوا !!!
'زبور عجم' کا علامہ اقبال کے کلام میں ایک اپنا مقام ہے، اس کتاب میں علامہ کی وہ مخصوص شاعری ہے جس کا پرچار وہ ساری زندگی کرتے رہے۔ زبورِ عجم عمل کی تلقین سے بھری پڑی ہے۔ اس نظم میں ٹیپ کا مصرع (بار بار آنے والا) 'از خوابِ گراں، خوابِ گراں، خوابِ گراں خیز' (گہری نیند سے اٹھ) ہے۔ یہ خوبصورت اور لازوال نظم ہے۔