انگریزی کا پوش اور ہے، اُردو کا پوش اور
جس شے سے کچھ ڈھانکا جائے اسے پوشش کہتے ہیں۔ غلاف ہی کو نہیں، لباس کو بھی پوشش کہا جاتا ہے۔ گاڑیوں کی نشستوں پر جو کپڑا چڑھایا جاتا ہے وہ بھی پوشش کہلاتا ہے۔ انسانی پوشش کو لکھنؤ والے پوشاک کہتے ہیں۔ ہم بھی کہنے لگے ہیں۔ نوراللغات کے مطابق پوشش کا لفظ غیر ذی روح یا حیوانِ مطلق کے لباس کے لیے مخصوص ہے۔ مگر دلّی کے مرزا غالبؔ نے حضورِ شاہ جو درخواست، اپنی تنخواہ بڑھانے کو بھیجی تھی اُس میں خود اپنے لیے بھی پوشش ہی کی حاجت ظاہر فرمائی تھی: " کیوں نہ درکار ہو مجھے پوشش ؛ جسم رکھتا ہوں،ہے اگرچہ نزار "