جاتے سال کی آخری نظم: سنو تم لوٹ آؤ نا
سنو مَیں مسکراتا ہوں ؛ سو تم بھی مسکراؤ نا ؛ سنو ، تم لوٹ آؤ نا
سنو مَیں مسکراتا ہوں ؛ سو تم بھی مسکراؤ نا ؛ سنو ، تم لوٹ آؤ نا
چلو اب اور کوئی کام کر لیں ؛ مَحَبّت عام ہوتی جا رہی ہے
افتخار عارف انتہائی قادر الکلام شاعر اور شگفتہ لب و لہجے کے مالک انسان ہیں ۔ انہوں نے کرب و بلا ، استعماری قوتوں کے انکار ، جبر کے خلاف مزاحمت اور دِیا جلائے رکھنے کے عزم کو ہمیشہ اپنی شاعری سے پیوست رکھا ہے ، کہ شاید سلیم احمد کے فکری جانشین کے یہی شایانِ شاں تھا۔ زیرِ نظر آزاد نظم اپنے منفرد اور دل نشین انداز کے علاوہ ظلم کے خلاف جدوجہد اور اس راہ کی صعوبتوں پر استقامت و عزیمت کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے بالآخر حق کے ہی فتح یاب ہونے کی خبر دیتی ہے۔
اردو شاعری میں آئے روز نت نئے تجربات ہو رہے ہیں، اور یہ معاملہ صرف اردو شاعری تک محدود نہیں ، ہر زبان کی شاعری میں ایسا ہوتا ہے۔ لیکن ان تجربات میں صرف وہی مقبول ہونے چاہئیں جو لچر پن ، بازاری الفاظ اور عامیانہ انداز سے پاک ہوں ۔ اسی طرح شاعری کو کوئی عجیب و غریب ملغوبہ بنا کر رکھ دینا بھی زبان و ادب سے کوئی خیر خواہی نہیں۔ لہٰذا یہ غظم ، نثری شاعری وغیرہم کو شاعری تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
مولانا ظفر علی خان قادر الکلام شاعر اور عظیم صحافی تھے ۔ شاعری میں اس درجہ مشاق اور با صلاحیت تھے کہ کھڑے کھڑے اشعار کے اشعار کہتے چلے جاتے تھے ، اور فی البدیہ شاعری میں خاص ملکہ رکھتے تھے۔
شہرِ پا بستہ کی رہائی کو ؛ نعرہِ انقلاب کافی ہے؟
آپ نے اپنی شاعری میں کہا تھا کہ: مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے ؛ لفظ میرے، مِرے ہونے کی گواہی دیں گے
مَیں شہر آرزو سے جا رہا تھا ؛ جب ؛ مجھے میرے شکستہ قافلے کی آبرو نے ؛ جاں بہ لب ہو کر پکارا
کسی کے دامنِ صد چاک اور اِک دوسرے کے ساتھ سے ؛ محروم ہوتے ، چُھوٹتے ، ؛ ہاتھوں سے ہاتھوں میں ؛ بہت بُھولے ہُوئے رِشتوں ؛ کبھی بِسرے سے ناطوں میں
امجد اسلام امجد کی تغیر کی آرزو لیے ایک نظم " کوئی گرد باد اُٹھے کہِیں ، کسی زلزلے کی نمود ہو " یا جوش ملیح آبادی کے الفاظ میں ، " نہ بُوئے گُل نہ بادِ صبا مانگتے ہیں لوگ ؛ وہ حبس ہے ، کہ لُو کی دعا مانگتے ہیں لوگ "