آئی ایم کی ناراضی کی اصل وجہ سامنے آہی گئی؟
سوچنے کی بات ویسے یہ ہے کہ اتنے کرتب دکھانے کے باوجود آئی ایم ایف اب تک کیوں راضی نہیں ہورہا۔ یار لوگوں کا کہنا ہے کہ معاملہ کچھ اور ہے......
سوچنے کی بات ویسے یہ ہے کہ اتنے کرتب دکھانے کے باوجود آئی ایم ایف اب تک کیوں راضی نہیں ہورہا۔ یار لوگوں کا کہنا ہے کہ معاملہ کچھ اور ہے......
نئی حکومت کیا آئی ہے، بجٹ کے بعدبھی بجٹ آرہے ہیں، مہنگائی کی ہر ہفتے نئی لہر آتی ہے اور عوام کا جینا ہر آنے والے دن میں دوبھر ہوتا جارہا ہے۔سابق خادم اعلیٰ اور موجودہ وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے وزیر خزانہ کے ہمراہ عوام کی خدمت میں چار سو چھیاسٹھ ارب روپے کا نیا ٹیکس پیش کر دیا ہے......
متوسط طبقے کا آدمی جو ایک لاکھ روپے ماہ وار تک کما رہا تھا اور جسے حکومت غریب سمجھ کر تیس ہزار روپے تک کی چھوٹ دے رہی تھی، کو اب یا تو 23 سے 30 فیصد کی شرح سے اپنی آمدن میں اضافہ کرنا ہے یا پھر زندگی کی چلتی گاڑی میں سے اپنی کچھ ضروریات کو باہر۔ صرف یہی صورت نظر آتی ہے اس کی بقا کی۔
بجٹ میں تنخواہ دار طبقہ ٹیکس میں چھوٹ، تنخواہوں میں اضافے اور دیگر مراعات کا متلاشی ہوتا ہے۔ کہنے کو یہ آئندہ آنے والے سال کی معاشی منصوبہ بندی ہوتی ہے، ہر حکومت اسے اپنے تیئیں عوام دوست بجٹ کا نعرہ لگاتی ہے اور ملک کی خوشحالی اور ترقی کی نوید سناتی ہے۔ لیکن بعض اوقات یہ بجٹ صرف اعدادوشمار کا گورکھ دھندہ اور ہوائی باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ کیا حالیہ بجٹ میں بھی تنخواہ دار طبقے کا خیال رکھا گیا ہے؟ حکومت نے کن مد میں ان کے لیے خوش خبری کا دعویٰ کیا ہے؟:
عمران خان کی حکومت کو مہنگائی اور نااہلی کے الزامات لگا کر نکال باہر کرنے کے بعد موجودہ کئی جماعتی اتحاد کے تحت بننے والی حکومت نے اگرچہ یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کی بحالی کے لیے اس کی شرائط تسلیم کی جارہی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان شرائط کی زد عام آدمی پر پڑنے سے روکنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
بجٹ پیش کرنے کے دو دن بعد ہی وزیر خزانہ صاحب نے عوام کو پھر سے ڈرانا شروع کردیا ہے کہ وہ منی بجٹ کے لیے تیار رہیں۔ اپنی تازہ ترین پریس کانفرنس میں ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران اور اب بجٹ میں حکومت کی طرف سے آئی ایم کی خوش نودی کے لیے اٹھائے گئے تمام تر اقدامات کے باوجود آئی ایم ایف کی طرف سے تشویش اور تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے لہٰذا ہوسکتا ہے کہ کئی مزید اقدامات ایسے اٹھانے پڑیں جن کاحالیہ بجٹ میں کوئی ذکر نہیں ہے۔
وفاقی حکومت کا ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بجٹ میں پچاس فیصد کٹوتی کا فیصلہ۔۔۔کیا اعلیٰ تعلیم حکومت کی ترجیح نہیں ہے؟ بجٹ کٹوتی سے یونیورسٹیوں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا؟ کیا فیسوں میں اضافہ ہوجائے گا؟ نالج اکانومی کیا ہے؟ احسن اقبال نے کیا تبصرہ کیا؟ کیا حکومت نے یوٹرن لے لیا؟