ستائیس اکتوبر یوم سیاہ: کیسے بھارت نے کشمیر میں فوجیں داخل کر کے غاصبانہ قبضہ کیا؟
ہم کشمیری بھائی بہنوں کا ساتھ اس وقت تک دیتے رہے گے جب تک بھارت قبضہ چھوڑ نہیں دیتا۔
ہم کشمیری بھائی بہنوں کا ساتھ اس وقت تک دیتے رہے گے جب تک بھارت قبضہ چھوڑ نہیں دیتا۔
سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ میں ایسے متعدد واقعات رپورٹ کیے گئے ہیں جن میں مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف تشدد، قتل، جنسی تشدد یا زیادتی اور نفرت پھیلانے کے مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں۔
ہندوستان کی اقلیتیں عموماً ہندوتوا اور بی جے پی کے نفرت انگیز رویوں کا شکار رہتی ہیں، لیکن جب بات خواتین کی آتی ہے جنہیں ایک اقلیت یا نچلے درجے کے طور پر دیکھا جاتا ہے تو امتیازی سلوک میں اور بدتری آ جاتی ہے۔
مسلمانوں کے خلاف جرائم کو روکنے کے لیے پولیس شاید ہی کبھی کوئی مداخلت کرتی ہے۔ بلکہ ایک طرح سے ایسے متشدد گروہوں کی سرپرستی بھی کی جاتی ہے ۔
ہندوستانی مسلمان دنیا کی سب سے بڑی اقلیت ہونے کے باوجود ہندو انتہا پسندوں کے ظلم اور جبر کا شکار ہیں۔ اس جبر ناروا کے خلاف عالمی قوتیں اندھی، گونگی اور بہری بنی ہوئی ہیں۔ مہ نور احسن صاحبہ کی یہ تحریر ہندو انتہا پسندوں کے مسلم اقلیت کے خلاف نفرت اور دشمنی سے پردہ اٹھاتی ہے۔
بات حجاب کی ہو یا اس سے آگے بڑھ کر اپنی مسلم شناخت کو قائم رکھنے کی۔ ہندوستان کی مسلمان عورت صدیوں سے اپنے دفاع اور شناخت کی جنگ لڑ رہی ہے۔ کہیں مسلمان مرد اس کا ساتھ دے پاتے ہیں اور کہیں اسے یہ جنگ اکیلے ہی لڑنا پڑتی ہے۔ کہنے کو مسلمان ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت ہیں، لیکن دن بہ دن کمزور ہوتی معیشت، ہندوتوا کے تابڑ توڑ حملوں کو سہتی مسلم معاشرت اور گزشتہ دو صدیوں سے نفرت کا نشانہ بننے والی قومیت سے تعلق رکھتے ہوئے اپنا دفاع کرنا کس قدر مشکل ہے ، یہ اس گرداب میں پھنسی خواتین ہی جانتی ہیں۔
حالیہ واقعات میں حکومتی آشیرواد سے بھارت کے دارالحکومت دہلی سمیت دیگر جگہوں پر مسلمانوں کے گھر بلڈوزر سے مسمار کیےجا رہے ہیں۔ یہ وہی دہلی ہے جس کی اینٹ اینٹ قطب الدین ایبک سے لے کر آخری مغل بادشاہ نے جوڑی تھی۔ آج اسی دلی میں مسلمانوں کے سر کی چھتیں ملیا میٹ ہو رہی ہیں اور ان کاکوئی پرسان حال بھی نہیں۔