صبح ہر اجالے پہ رات کا گماں کیوں ہے
صبح ہر اجالے پہ رات کا گماں کیوں ہے
جل رہی ہے کیا دھرتی عرش پہ دھواں کیوں ہے
خنجروں کی سازش پر کب تلک یہ خاموشی
روح کیوں ہے یخ بستہ نغمہ بے زباں کیوں ہے
راستہ نہیں چلتے صرف خاک اڑاتے ہیں
کارواں سے بھی آگے گرد کارواں کیوں ہے
کچھ کمی نہیں لیکن کوئی کچھ تو بتلاؤ
عشق اس ستم گر کا شوق کا زیاں کیوں ہے
ہم تو گھر سے نکلے تھے جیتنے کو دل سب کا
تیغ ہاتھ میں کیوں ہے دوش پر کماں کیوں ہے
یہ ہے بزم مے نوشی اس میں سب برابر ہیں
پھر حساب ساقی میں سود کیوں زیاں کیوں ہے
دین کس نگہ کی ہے کن لبوں کی برکت ہے
تم میں جعفریؔ اتنی شوخیٔ بیاں کیوں ہے