صبح دم کیسے ملے محفل میں پروانے کی خاک
صبح دم کیسے ملے محفل میں پروانے کی خاک
سرمۂ چشم وفا کیشاں ہے دیوانے کی خاک
جوشش آوارگی شوق مجنوں منفعل
شاہد صحرا نوردی میری ویرانے کی خاک
چپکے چپکے شمع سوزاں رات بھر روتی رہی
رکھ کے اپنے سامنے محفل میں پروانے کی خاک
کیا کوئی پھر قیس آشفتہ چلا ہے سوئے دشت
کس کو اٹھ کر دیکھتی ہے روز ویرانے کی خاک
روز لاتی تھی صبا محفل میں بوئے زلف یار
اس دفعہ آئی ہے لے کر ان کے کاشانے کی خاک
دیکھنا ہی چاہتے ہیں نشہ زاہد تو پھر
مے گساروں سے کہو مل لیں وہ میخانے کی خاک
شیخ صاحب کیا ہے فتویٰ آپ کا اس باب میں
قابل سجدہ ہے پاشاؔ کو صنم خانے کی خاک