باپ کی لازوال محبت کا انداز کیسا ہوتا ہے، ایک خوب صورت تحریر
وہ اتنی بلند آواز سے روئی کہ اس کا تڑپنا دیکھا نہ جاتا تھا۔ تین لوگ جو گاڑی میں ساتھ آئے تھے اس کو کنٹرول کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ اس کی زبان پر یہی تھا۔۔ بابا پاس۔۔بابا پاس ۔۔
وہ اتنی بلند آواز سے روئی کہ اس کا تڑپنا دیکھا نہ جاتا تھا۔ تین لوگ جو گاڑی میں ساتھ آئے تھے اس کو کنٹرول کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ اس کی زبان پر یہی تھا۔۔ بابا پاس۔۔بابا پاس ۔۔
استاد بادشاہ تو نہیں ہوتا لیکن بادشاہ بناتا ہے۔۔۔استاد کو خراج تحسین پیش کرتا افسانہ۔۔۔عالمی یوم اساتذہ (سلام ٹیچر ڈے) پر خصوصی افسانہ
ایک استاد کا قصہ جسے تعلیم و تدریس سے عشق تھا۔۔۔لیکن یہ راہ کوئی آسان نہیں تھی۔۔۔آخر وہ اس راہ پر آیا ہی کیوں تھا۔۔۔پڑھیے عالمی یوم اساتذہ (سلام ٹیچر ڈے) کے موقع پر خصوصی افسانہ
اب رو رہی ہیں ہم عورتیں، نہ صرف آپس میں گلے لگ لگ کر بلکہ اسی ڈوگر کے خاندان سے بھی۔ ان کا بھی تو کچھ نہیں بچا ناں۔ جھگڑے کی آگ نے سب کچھ پھونک کر رکھ دیا۔
بارش برس رہی تھی ۔ آسمان پر بادل مزید گہرے ہو رہے تھے ۔۔۔ بہت گہرے۔۔۔اور بارش کی بوندیں اس کی بند آنکھوں کے در کھٹکھٹا رہی تھیں۔لیکن وہ ۔۔۔
زندگی اب رفتہ رفتہ خساروں سے نکل رہی تھی لیکن کوئی بھی منافع ایک خسارے کی تلافی کرنے میں ناکام رہا تھا۔۔۔ آج وہ ماں کی لحد پر بیٹھا سوچ رہا تھا کہ کاش جیسے اس روز میری فیس کا نقصان پورا کرنے کے لیے صبح صبح۔۔۔منہ اندھیرے وہ اسے تسلی دینے اتنا فاصلہ طے کر کے پاس پہنچ گئی تھیں۔۔۔بعض خسارے ایسے ہوتے ہیں جن کے ساتھ جینا ہی پڑتا ہے۔ایک ایسے ہی خسارے کی کہانی ملاحظہ کیجیے۔
کوئی بھی انسان معمولی نہیں ہوتا۔۔۔زندگی کا سفر تلخ ضرور ہے لیکن بے مزا نہیں۔ زندگی کے اس سفر میں ہر انسان اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ ایک راہ چلتے عام آدمی نے ایک مسافر کو دیا زندگی کا گیان۔۔ بقول اقبال ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات۔۔۔لیکن ان کے چہروں پر مسکراہٹ کی کوئی قیمت نہیں۔۔۔زندگی انھی کے دم سے سانس لے رہی ہے۔۔۔یومِ مزدور پر ایک خوب صورت کہانی کا مزا لیجیے
زندگی چھوٹی چھوٹی کہانیوں کا مجموعہ ہے۔۔۔کوئی کہانی کا حصہ ہے تو کوئی کہانی گو۔۔۔کوئی کہانیاں بُن رہا ہے تو کوئی کہانی کی تلاش میں ہے۔۔۔یہ افسانہ بھی ایک ایسے کہانی کار کی کہانی ہے جو کہانیاں لکھتا لکھتا خود کہانی بن چکا تھا۔
رات کے آخری پہر دروازے پر دستک ہوئی۔ اپنے بیٹے کا پیٹ پالنے کی خاطر دوسروں کے گھر کام کر کے تھکی ماندی پونم اٹھی اور دروازے کی طرف جاتے ہوئے بولی : "ضرور یہ بلونت ہوگا" اور دروازہ کھول دیا۔ شراب کے نشے میں دھت بلونت سنگھ دروازہ کھلتے ہی نیچےگر گیا وہ زخمی تھا اورپولیس اس کا پیچھا کر رہی تھی ۔اس کی بائیں پنڈلی پر گولی لگی تھی۔ زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے وہ بے ہوش ہوگیا۔ ایشر سنگھ بھی جاگ چکا تھا۔ اپنے باپ کو اس حالت میں دیکھ کروہ پریشان ہوگیا۔
رات کا وقت۔۔۔ اور رقت میں ڈوبی وہ لرزتی ہوئی صدا ۔۔۔بہزاد کی سماعتوں سے ہوتی ہوئی دل تک پہنچ رہی تھی۔ اسے پتہ ہی نہ چلا کہ کب آنسوؤں کی ایک بے قرار موج پلکوں سے فرار ہو کر اس کے چہرے پر بکھر گئی۔ اذان ختم ہونے پر وہ جیسے اچانک ہوش میں آگیا ہو۔ وہ اپنے ارد گرد ہر چیز کو یوں دیکھنے لگا جیسے سب اس کے لیے نامانوس ہوں۔ اس نے اپنے گال کو چھو کر دیکھا۔۔۔ یہ آنسو۔۔۔ یہ آنکھوں سے بہنے والا پانی بھی اس کے لئے بالکل اجنبی تھا ۔