سوز جنوں کو دل کی غذا کر دیا گیا

سوز جنوں کو دل کی غذا کر دیا گیا
اک زہر جاں طلب کو دوا کر دیا گیا


ناسور بھر سکے نہ فغاں ضبط ہو سکی
جب نے کو نیستاں سے جدا کر دیا گیا


اہل وفا میں موت کی تلخی کو سر بسر
قنداب زندگی سے سوا کر دیا گیا


ازبر کرا دیا ہے خزاں کو نصاب گل
صرصر کو درس دے کے صبا کر دیا گیا


سورج سے رنگ رنگ کی کرنیں بکھیر کر
مٹی کا زرد کھیت ہرا کر دیا گیا


لہکی اذان بجنے لگے راستوں کے فرش
کرنوں کو قید شب سے رہا کر دیا گیا


روح بہار خون شہیداں کا رنگ دیکھ
خاک چمن کو لالہ قبا کر دیا گیا