سوز دروں سے جل بجھو لیکن دھواں نہ ہو

سوز دروں سے جل بجھو لیکن دھواں نہ ہو
ہے درد دل کی شرط کہ لب پر فغاں نہ ہو


پھر ہو رہا ہے شور صلائے نبرد عشق
ہاں اے دہان زخم جواب الاماں نہ ہو


بازار جاں فروش میں سودا نہ ہو یہ کیا
گاہک ملے تو جنس تو یہ بھی گراں نہ ہو


اس درد لا جواب کی کیونکر کروں دوا
وہ حال دل نشیں بھی تو مجھ سے بیاں نہ ہو


کیا فائدہ گر اس نے چھپایا بھی درد دل
یہ کام جب بنے کہ مژہ خونچکاں نہ ہو


کیا کیجے چن کے مائدۂ دل کو لخت لخت
تیرا ہی تیر سینے میں جب مہماں نہ ہو


خوف رقیب کا تو یہ عالم اور اس پہ عشق
سب چاہتے ہیں چاہ کا ان پر گماں نہ ہو


ہے وصل یار کی بھی تمنا کا حوصلہ
ڈر یہ بھی ہے کہ طبع عدو پر گراں نہ ہو


پہلو سے دل کو لے کے وہ کہتے ہیں ناز سے
کیا آئیں گھر میں آپ ہی جب میزباں نہ ہو


سنتے ہی جس کے خلق سے کہرام مچ گیا
جوہرؔ وہ تیری ہی تو کہیں داستاں نہ ہو