بیٹری کو چارج کرو ایک بار ، چلے وہ بیس سال
سائنس دانوں نے ایک ایسی بیٹری ڈیزائن کی ہے جو شمسی توانائی کو اٹھارہ سال تک محفوظ رکھ سکتی ہے۔ یعنی ایسی بیٹری ہے کہ ایک بار چارج کرو اور وہ چلے بیس سال۔۔۔اب ختم ہوا بار بار بیٹری چارج کرنے کا مسئلہ حل !
حیرت، تجسس اور اختراع انسان کی سرشت میں ودیعت کی گئی۔ سائنس کی دنیا انسان کی اس تجسس اور اختراع کو تسکین پہنچانے کی آماج گاہ ہے۔ چوتھے صنعتی انقلاب نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک ہنگامہ برپا کردیا ہے۔ جہاں سائنس نے ترقی کی ہے، وہاں مسائل نے بھی جنم لیا ہے۔ سائنس دان اور ماہرین اس "سائیڈ ایفیکٹس" (ضمنی اثرات) کے خاتمے اور بہتر سے بہترین کے سفر کے لیے مسلسل گامزن ہیں۔ سائنسی ایجادات میں ایک کسی بھی توانائی کو برقی توانائی یعنی بجلی میں منتقل کرنے کا کارنامہ بھی شامل ہے۔ پہلے پہل بجلی کو "چھونے" سے "جل" جانے کا خطرہ ہوتا تھا اب اس بجلی کو(بیٹری کی صورت) ساتھ لیے پھرتے ہیں۔
ہم جب مارکیٹ سے موبائل فون خریدنے جاتے ہیں تو دیگر خصوصیات کے ساتھ ایک دیر تک چلنے والی بیٹری کو بھی مدنظر رکھتے ہیں۔ یعنی ہمیں ایسا موبائل فون چاہیے جس کی بیٹری "چلتی جائے۔۔۔ چلتی جائے" بلکہ یوں کہیے کہ فراٹے بھرتی جائے اور ختم ہونے کا نام نہ لے۔ خوش ہوجائیے کہ سائنس دانوں نے آپ کا یہ خواب بھی شرمندہ تعبیر کردیا۔ ایک ایسی بیٹری تیار کی ہے جو شمسی توانائی سے ایک بار چارج ہونے کے بعد اٹھارہ سال تک چلتی رہے گی۔ یہ بیٹری ماحول دوست بھی ہوگی یعنی "دھواں" بھی نہیں چھوڑے گی یعنی کاربن اخراج کا باعث بھی نہیں بنے گی۔
چین کی شنگھائی یونیورسٹی کے ماہرین کے تعاون سے سویڈین کی چامُز یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے سائنس دانوں نے ایک انرجی سٹوریج آلہ( بیٹری) تیار کیا ہے جسے مالیکیولر سولر تھرمل سسٹم (ایم او ایس ٹی ۔۔ موسٹ) کا نام دیا گیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کو سویڈن کے ماہرین نے 2017 میں ایجاد کرلیا تھا۔ لیکن اس سسٹم کے ساتھ حرارت سے بجلی پیدا کرنے والا (تھرمو الیکٹرک) جنریٹر کو جوڑا گیا ہے جو آن ڈیمانڈ بجلی مہیا کرے گا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ چند دن قبل ایک خبر آئی تھی کہ ایسے سولر پینل تیار کیے گئے ہیں جو رات میں بھی بجلی پیدا کرسکیں گے۔ ان سولر پینل میں بھی تھرمو الیکٹرک جنریٹر استعمال کیا گیا ہے۔ یہ جنریٹرز بہت کم حرارت یا انرجی سے بھی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
سویڈن کے کیمسٹری کے پروفیسر کیسپر موتھ پولسن موسٹ سسٹم کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چاہے سردی ہو یا گرمی، دن ہو یا رات، موسم بہار کا ہو یا خزاں کا اور آپ پہاڑوں کی چوٹی پر رہتے ہوں یا صحرا کی خاک چھاننے والے آپ اس سسٹم کے ذریعے سے سولر انرجی سے بجلی پیدا کرسکتے ہیں۔ مزید یہ کہ کاربن اخراج کا خطرہ بھی نہیں ہے۔۔۔۔کاربن ڈائی آکسائیڈ بھی خارج نہیں ہوگی۔
سویڈین کے ماہرین اس ٹیکنالوجی پر ایک عشرے سے مصروفِ عمل تھے۔ ان کو یقین تھا کہ ایک دن وہ ایک ایسی بیٹری تیار کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ آخر ان کی محنت رنگ لائی اور ایسی بیٹری تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے جسے اٹھارہ سال تک استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ بیٹری جو کم بجلی خرچ کرنے والے آلات (موبائل فون وغیرہ) کے لیے طویل عرصے تک کارآمد ہوگی۔ اس بیٹری کو کاربن، ہائیڈروجن اور نائٹروجن سے تیار کیا گیا ہے۔
ابتدائی طور پر یہ بیٹری موبائل فون جیسی کم بجلی خرچ کرنے والے آلات کو چارج کرنے کے لیے کارآمد ہے لیکن ماہرین پُر امید ہیں کہ چند برسوں میں کمرشل سطح پر بھی ایسی بیٹریوں کی پیداوار شروع ہوجائے گی جو گھروں میں بھی استعمال کی جاسکے گی۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک جو انرجی کرائسس یعنی توانائی کا بحران کا شکار ہیں، ان کے لیے یہ انرجی سٹورنگ سسٹم ایک ہوا کا جھونکا ثابت ہوگا۔ آپ نے غور کیا ہوگا کہ یورپ اور ترقی یافتہ ممالک میں سائنسی تحقیق، سائنسی ایجادات اور نئی ٹیکنالوجیز پر یونیورسٹیوں میں کام ہورہا ہے۔ یعنی جدید سائنسی ایجادات اور ٹیکنالوجی تعلیمی اداروں میں تیار ہورہی ہیں۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے تعلیمی نظام میں سائنسی تعلیم کا ایک جاندار، متحرک اور فعال نظام تشکیل دیں۔ بچوں کے تجسس کی صلاحیت کو نکھاریں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ محض نمبر گیم کی غیر فطری دوڑ نے ہمارے بچوں کو ایک بے کار مشین کی مانند بنا دیا ہے جو چلتی تو بہت ہے لیکن فائدہ پھوٹی کوڑی کا بھی نہیں پہنچا رہی ہے۔ خدارا سائنسی کلچر کو فروغ دیجیے اور جدید تدریسی طریقے استعمال کیجیے۔