سوئی حسرت جگا گیا کوئی

سوئی حسرت جگا گیا کوئی
خواب مجھ کو دکھا گیا کوئی


چاند بھی اب نہیں رہا دل کش
کس قدر دل لبھا گیا کوئی


بعد مدت کے آنکھ یوں روئی
مجھ کو دریا بنا گیا کوئی


آج سیکھی ہے دوستی میں نے
جان مجھ پر لٹا گیا کوئی


وہ سمجھتے تھے مجھ کو لا ثانی
آئنہ پھر دکھا گیا کوئی


اس نے پوچھا تھا میری قیمت کو
دام اس کا لگا گیا کوئی


آج شمشیرؔ پھر پریشاں ہے
در سے بھوکا چلا گیا کوئی