سوشل میڈیا ہمارے ہارمونز کو کیسے متاثر کررہا ہے؟
یہ صدی رابطوں کی صدی ہے ۔ سوشل میڈیا نے فاصلوں کو سمیٹ دیا ہے ۔ میلوں دور بیٹھے لوگوں کو قریب کر دیا ہے ۔اسی سوشل میڈیا کا لیکن ایک دوسرا پہلو بھی ہے ۔ جہاں اس نے دور بیٹھے لوگوں کو قریب کر دیا ہے وہیں قریب رہنے والوں کو دور بھی کر دیا ہے ۔ وہ شعر غالباً ایسی ہی صورتحال کے بارے میں کہا گیا تھا:
فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا میرے وہ مگر میرا نہ تھا
کیا سوشل میڈیا نے ہماری زندگی کو اجنبی بنا دیا ہے؟
ہر انسان اسی سوشل میڈیا کی لت کی وجہ سے اپنے اردگرد بسنے والے دوستوں ، عزیزوں اور خاندان والوں سے لاتعلق سا ہوتا جا رہا ہے ۔ دوسرے تو دوسرے انسان اپنے ساتھ اب ملاقات نہیں کر پاتا کیونکہ یہ سوشل میڈیا تب بھی ہمارے ساتھ ہوتا تھا گویا "جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا "۔ ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں ہر کوئی اوسطاً 2 سے 4 گھنٹے روزانہ اپنی ڈیوائس پر ٹیپنگ، ٹائپنگ اور سوائپنگ کرتے ہوئے گزار دیتا ہے گویا زندگی کے دورانیے کا چھٹا حصہ سوشل میڈیا کی نذر کر دیتا ہے۔یہ ہمارے عام مشاہدے کی بات ہے کہ جب ہم فارغ ہوتے ہیں تو بے وجہ ہی اپنے موبائل کو چیک کرنے لگتے ہیں۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہر شخص روزانہ 2600 بار اپنے موبائل فون کی سکرین کو ٹچ کرتا ہے ۔
کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ ہم اس قدر سوشل میڈیا کے عادی کیوں ہو چکے ہیں ؟ ہم کیوں بار بار ارادی اور غیر ارادی طور پر اپنے موبائل فون کو چیک کرتے ہیں ؟ کیوں ہم یہ سب کیے بنا رہ نہیں پاتے ؟
آئیے اس کی وجہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں!
ڈاکٹر انا لیمبکے (Dr. Anna Lembke) دنیا کے بہترین ماہرین نفسیاتوں میں شمار ہوتی ہیں۔ وہ سٹینفرڈیونیورسٹی ڈوئل ڈائگنوسٹک کلینک کی چیف ہیں۔ یہ ڈپارٹمنٹ ایک سے زیادہ نفسیاتی امراض میں مبتلا مریضوں کا علاج کرتا ہے۔ ان کا پچھلے 25 سال ایسے مریضوں سے پالا پڑتا رہا ہے جن کو کسی نہ کسی چیز کی لت لگ گئی ہو جیسے منشیات ، ویڈیو گیموں یا ایسی کسی دوسری چیز کی عادت ہو جانا۔ 53 سالہ ڈاکٹر انا نے ایک بڑی دلچسپ کتاب لکھی ہے جس کا نام "ڈوپا مائن نیشن" ہے ۔ اس کتاب میں انہوں نے بڑے منفرد موضوع پر اپنی کئی سالہ تحقیق کی روشنی میں اظہار خیال کیا ہے۔
اس موضوع کو سمجھنے کے لیے پہلے آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ڈوپومین کیا ہے۔
ڈوپومین کیا ہے؟
ڈوپومین (Dopamine) ایک نیوروٹرانسمٹر ہے جو دماغ میں اس وقت پیدا ہوتا جب ہم کسی کام کے نتیجے میں کسی قسم کے روارڈ (Reward) کی توقع کر رہے ہوتے ہیں۔ ڈوپومین حسی خلیات یعنی نیورانز کے درمیان کیمیائی پیغام رساں کا کردار ادا کرتا ہے۔ ڈوپامائن کے خارج ہونے پہ ہمیں خوشی اور مسرت کا احساس ہوتا ہے۔ یہ خوشی کا احساس ہمیں مزید "ریوارڈ" حاصل کرنے کے لیے تحریک بھی دیتا ہے اس لیے ہم دوبارہ وہ عمل دوہراتے ہیں جس صلے میں دوبارہ ڈوپومین خارج ہوتا ہے اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے۔ اپنی فرحت بخش خوبیوں کی بناء پر ڈوپومین فیل گڈ ہارمون (Feel-good harmone) بھی کہلاتا ہے۔
ڈاکٹر انا لیمبکے سمارٹ فونز کو ایک نشے کے لیے استعمال ہونے والی سوئی سے تشبیہ دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ ہم بار بار ارادی یا غیر ارادی طور پر اسے ٹچ یا سوائپ کرتے ہیں جس کا مقصد محض توجہ حاصل کرنا، پزیرائی چاہنا یا دھیان بٹانا ہوتا ہے۔ جب ہم کسی سوشل میڈیا ایپ کو کھولتے ہیں کو ہم اپنی دلچسپی کے مطابق "ریوارڈ" کی توقع کر رہے ہوتے ہیں۔ اکثر سوشل میڈیا ایپس اپنے بہترین آرٹیفیشل انٹیلی جینس کےالوگردھم کی وجہ سے ہماری دلچسپی اور پسند کے مطابق ہمیں "ریوارڈ" بہم پہنچاتی ہیں۔
اپنی خواہش کے مطابق "ریوارڈ" ملنے پر ہمارا دماغ ڈوپومین خارج کرتا ہے جس سے ہم خط اٹھاتے ہیں۔ہمارے اندر ایک خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ یوں ہمارے اندر اس خوشی اور مسرت کو بار بار محسوس کرنے کی تحریک پیدا ہوتی ہے۔ یوں ہمیں سوشل میڈیا کی لت لگ جاتی ہے۔
ڈوپومین نیشن کیسے وجود میں آرہی ہے؟
سوشل میڈیا ڈویلپرز اپنے سسٹم کے لیے الوگردھم مرتب کرتے ہوئے خاص طور پر خیال رکھتے ہیں کہ کس طرح صارف کی اس "ریوارڈ" کی چاہت کو اپنے حق میں استعمال کرنا (ایکسپلوائٹ کیا) جا سکتا ہے۔ ہمارے بارے میں حاصل معلومات کی بنیاد پر ایپ کو کھولتے ہی جو کانٹینٹ ہمیں نظر آتا ہے، وہ ہماری پسند کے مطابق ہوتا ہے۔ یوں ہم فرصت میں ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو وزٹ کرنے کے عادی ہوتے چلے جاتے ہیں۔
ڈوپومین اثر کا علاج کیا ہے؟
سوشل میڈیا سروس پروائڈرز ایسا کرتے ہیں اور ایسا کرتے رہیں گے۔ اسی میں ان کی بقاء ہے۔ ہمیں اپنے وقت کا بدریغ ضیاع روکنا ہو گا۔ خود کو اور اپنے آس پاس کے لوگوں کو وقت دینا ہوگا۔ اپنے دماغ کو متبادل "ریوارڈز" کا لالچ دینا ہو۔ وہ "ریوارڈز" کتابیں پڑھنا، سیرو سیاحت کرنا یا کھیل کود بھی ہو سکتا ہے۔ ابتداء میں تھوڑی دشواری ہو گی لیکن سنبھل جائے گا دل سنبھلتے سنبھلتے!
ڈوپومین کے بارے مزید جاننے کے لیے اس ویڈیو کو دیکھیے: