سوچتا ہوں کہ وہ کیسا ہوگا
سوچتا ہوں کہ وہ کیسا ہوگا
آئینہ ہوگا کہ چہرا ہوگا
جب کھلی ہوتی ترے دوش پہ زلف
ابر بھی ٹوٹ کے برسا ہوگا
جس کے جلووں کی کوئی حد ہی نہیں
میں نے کتنا اسے چاہا ہوگا
لوگ فردوس جسے کہتے ہیں
اس زمیں کا کوئی ٹکڑا ہوگا
جام کیوں ہاتھ سے گر جاتا ہے
میکدے میں کوئی پیاسا ہوگا
محفلیں کرتی ہیں خود اس کا طواف
کون کہتا ہے وہ تنہا ہوگا
اس کی محفل میں چلے ہو تو ضیاؔ
دیدہ و دل پہ بھی پہرہ ہوگا