سو اب دیوار کے اندر سے پھر اک در نکالوں گی

سو اب دیوار کے اندر سے پھر اک در نکالوں گی
میں اپنی چشم بینا سے نئے منظر نکالوں گی


حسیں خوابوں کی صورت جو مری آنکھوں کی زینت ہیں
زمانہ دیکھتا ہوگا میں وہ گوہر نکالوں گی


تمہارے ہجر کی صورت جو اس سینے کے اندر ہے
اگر کچھ بن پڑا مجھ سے تو وہ پتھر نکالوں گی


میں خود کو کھینچ لاؤں گی اندھیری رات میں اک دن
انہی تاریک رستوں پر میں اپنا ڈر نکالوں گی


تمہاری دسترس سے جو نکل پائی کسی لمحے
مجھے تم دیکھتے رہنا میں کیسے پر نکالوں گی