سیاہ رات کی سب آزمائشیں منظور (ردیف .. ا)

سیاہ رات کی سب آزمائشیں منظور
کسی سحر کے اجالے کا آسرا تو ملا


نظر ملا نہ سکے ہم سے وہ تو غم کیا ہے
کہ دل سے دل کے دھڑکنے کا سلسلہ تو ملا


ہے آج اور ہی کچھ زلف تاب دار میں خم
بھٹکنے والے کو منزل کا راستہ تو ملا


سرشک چشم سے موتی بہت لٹائے گئے
تری نگہ کے شہیدوں کو خوں بہا تو ملا


جہاں نگاہ سے انساں بنائے جاتے ہیں
وہ باب مے کدہ میرے لیے کھلا تو ملا


ستم ظریف محبت کو جرم کہتے ہیں
گناہگار کو جینے کا آسرا تو ملا


نہ رہنما ہے نہ منزل دیار الفت میں
قدم اٹھاتے ہی خضر شکستہ پا تو ملا


مرے جنوں نے کھلائے ہیں پھول صحرا میں
مرے جنوں سے بہاروں کو حوصلہ تو ملا


سمجھتے تھے کہ وفا نا شناس ہے دنیا
سرورؔ ہم کو بھی اک درد آشنا تو ملا