سیاہ آنکھ میں تصویر
لارنزد کی لاش کئی روز تک مقدس پہاڑی کی چوٹی پر گڑی صلیب سے جھولتی رہی۔
انہوں نے اسے صلیب پر میخوں سے گاڑنے کی بجائے ایک رسہ لٹکا کر پھانسی دی تھی۔ میخیں مہنگی ہوتی ہیں۔ ایک مرتبہ گاڑی جائیں تو آسانی سے اکھڑتی نہیں۔ ضائع ہو جاتی ہیں۔ رسہ سستا ہوتا ہے۔ پھانسی دینے کے لیے کوئی اور مجرم نہ بھی ملے تو اس کے ساتھ ڈول باندھ کر کنوئیں سے پانی نکالا جا سکتا ہے۔
اس کی مردہ آنکھیں کھلی تھیں۔
گردن ایک ایسے زاوئیے پر ڈھلکی ہوئی تھی دور سے لگتا جیسے وہ ہنستے ہنستے ایک دم ترچھا ہو کر ساکت ہو گیا ہو۔۔۔ جیسے کسی ’’وچ ڈاکٹر‘‘ نے چیتھڑوں سے بنے ہوئے گڈے کو رسے سے باندھ کر لٹکا دیا ہو۔۔۔ اور وہ بے اختیار جھولتا رہے۔
اس کی مردہ آنکھیں کھلی تھیں۔
خانہ بدوشوں کے غاروں کے دہانے ششدر، حیرت زدہ کھلے تھے۔ جیسے ہابیل کے قتل پر پہاڑ کامنہ کھل گیا۔ زبان باہر لٹک گئی تھی۔ سنگلاخ سینے میں سے آنسو رواں ہو گئے تھے۔
مقدس پہاڑی کے دامن میں البسین کا مورش محلہ دھوپ میں سفید ہورہا تھا۔ قدموں میں دریائے حدرہ کے پانی تھے۔ سامنے جبل سلیقہ پر سرخ پتھر کا معجزہ، قصر الحمراء کی گرمی میں پھنک رہا تھا۔۔۔ مگر لارنزد ان سب سے لاتعلق مردہ آنکھیں کھولے جھولتا رہا۔
شارع چانپیر کے پگھلے ہوئے کولتار پرابھی تک شراب کے خالی ڈرم، ریت کی بوریاں اورگھریلو فرنیچر بکھرا پڑاتھا۔۔۔ لیکن کہیں خون کے دھبے تھے سوکھے ہوئے جیسے کسی بڑھیا کے لپ سٹک زدہ ہونٹوں پر پپڑیاں ابھرتی ہیں۔ البسین سپاہیوں نے کئی روز تک فرانکو کی ماہر افواج کا مقابلہ کیا۔
یہاں تک کہ وہ پورے غرناطہ سے کٹ کر استقامت کا ایک جزیرہ بن گئے۔ فاشسٹوں نے دریائے حدرہ میں سے سانس لینے والے پانی کے پائپ کاٹ دئیے تھے، اور جب متعدد بچوں کے پیاسے مرنے کے باوجود انہوں نے ہتھیارنہ ڈالے تو البسین پر ہوائی جہازوں سے بم برسائے گئے۔۔۔ بیری کیڈ ٹوٹی تو اس کے ساتھ ہی گھروں کی سفیدی کی ہوئی چمکتی دیواروں پر مکینوں کے خون اور گوشت کے چیتھڑے یوں برسے کہ ان پر گہرے ہلکے اور شوخ سرخ رنگوں کی تصویریں ابھر آئیں۔ جنہیں آنے والی نسلوں نے مٹانے کی کوشش کی۔۔۔ ان پرقلعی کے کئی لیپ پھیرے مگر انکے رنگ اورگہرے۔۔۔ مزید شوخ ہوتے چلے گئے۔ الحمراء کے برجوں تلے، غرناطہ کے میونسپل قبرستان میں روزانہ سینکڑوں افراد آزادی سے سانس لینے کی خواہش کی پاداش میں اپنے جسم میں داخل ہونے والے سیسے کے بوجھ سے سرنگوں ہوتے رہے۔ شہر سے چند میل کے فاصلے پر عرب عہد کے ایک پرفضا تالاب کے کنارے بھی فاشسٹوں نے آزاد خون کو منجمد کیا اور پھراسے ایک اجتماعی قبر میں بل ڈوزروں سے دھکیل دیا۔ ان سینکڑوں لاشوں میں گارسیا لور کا کا مردہ جسم بھی تھا۔ بل ڈوزر کے سرد بلیڈ لورکا کے سرد تر جسم میں کھبنے پر بھی نہ جان سکے کہ یہ ایک شاعر کا بدن ہے کہ اس کے مرنے پر سوگواروں نے کہاتھا، گارسیا لوکا مرگیا اب غرناطہ بغیر دل کے ہے۔
لارنزد کی سیاہ مرجھاتی ہوئی سکڑتی آنکھوں کے سامنے اس کا محلہ البسین سناٹے کے سمندر میں دبکے ہوئے ایک ویران جزیرے کی مانند آہستہ آہستہ جھول رہا تھا۔ قدیم مورش حویلیاں سنسان پڑی تھیں اور ان کے خاموش فواروں کے سوکھے ہوئے تالابوں میں بچوں کی لاشیں منہ کھولے دھوپ میں اکڑ رہی تھیں۔ مکانوں کے دروازے کھلے تھے اورمکینوں کے پھٹے ہوئے جسم چوکھٹوں پر اوندھے پڑے تھے۔ سوکھی ہوئی نالیوں کی پیاس کے لیے گاڑھا خون ناکافی تھا کہ مکانوں میں سے نکلتے ہی وہ سرخ چھیچھڑوں میں بدل چکا تھا۔ ہر سو خاموشی تھی۔ صرف مقدس پہاڑی پر کلیسا کا گھڑیال فتح کی خوشی میں جھول رہا تھا اور اس کی گونج البسین کی فضاؤں میں بھوکے گدھ کی طرح تیررہی تھی۔ لارنزد کی لاش کئی روز تک مقدس پہاڑی کی چوٹی پر گڑی صلیب سے جھولتی رہی۔
لارنزد کو ہسپانوی خانہ جنگی سے کوئی سروکار نہ تھا۔ اسے نہ توذی۔۔۔ سے کوئی خاص انس تھا اور نہ ہی وہ فرانکو کے بارے میں اچھے یا برے جذبات رکھتاتھا۔ اسے تو نیشنلسٹ اور ری پبلکن کے الفاظ ادا کرنے میں بھی دشواری پیش آتی تھی۔۔۔ وہ سیدھا سادا خانہ بدوش تھا۔ موسم گرما میں ملک کے طول و عرض میں منعقد ہونے والی گھوڑوں کی منڈیوں میں جاکر دہقانوں کو عمدہ نسل کے گھوڑے خریدنے میں مدد دیتا۔ مشوروں کی فیس وصول کرتا اور فرصت کے لمحات میں انہی دہقانوں کی جیبیں کاٹتا۔ سردیوں میں وہ اپنے مختصر غار میں بیٹھ کر بے تحاشا وینو پیتا اور شام کو اپنی بیوی اوربیٹی کو عصمت فروشی کے لیے بھیج کر خود مزید وینو پیتا اور بالآخر مدہوش ہو کر سو رہتا۔ کہنے کو تو اس کے ہاں دس بچوں نے جنم لیا مگر وہ ہر بچے کی پیدائش پراس کا ناک نقشہ دیکھ کر پہلے اطمینان کرلیتا کہ نومولود اسی کاہے۔ اگرخدوخال میں اس کی سیاہ آنکھوں اور خنجر کی نوک ایسی ناک کا کوئی شائبہ نظر نہ آتا تو وہ اسے بلا تکلف کسی اورخانہ بدوش کو تحفتاً دے دیتا۔۔۔
لڑکے جیبیں کاٹنے کے لیے موزوں تھے۔ اور لڑکیاں ظاہر ہے عصمت فروشی کے لیے۔۔۔ یوں اس کے پاس اس چھان پھٹک کے بعد صرف دو بیٹے آرتورو اور آندریس اور ایک بیٹی آوے لابچی تھی۔ خانہ بدوشوں میں اس کی شرافت کاچرچا تھا کہ وہ بچوں کو اغواء کرنے کا بے حد مخالف تھا اور جوانی کے ابتدائی ایام کے سوا اس نے آج تک کسی کو قتل نہیں کیا تھا۔۔۔ زندگی بے حد پرسکون اورخوشگوار تھی مگر ایک روز جب وہ اپنے غار میں وینو کے نشے میں دھت لیٹا گتار پر فلیمنکو کی دھن بے حد اوٹ پٹانگ طریقے سے بجارہا تھا۔
اسے محسوس ہوا کہ اس اداس دھن کے پس منظر میں کوئی ہولے ہولے پٹاخے چھوڑرہا ہے۔ پہلے تو وہ اسے خمار آلود ذہن کے کلبلاتے خون کا کرشمہ سمجھا مگر جب آوازیں بلند ہوتی چلی گئیں تو وہ گتار کی ٹیک لگا کر اٹھااور لڑکھڑاتا ہوا باہرآگیا۔ تیزدھوپ اس کی سرخ آنکھوں میں باندریلو کی برچھیوں کی طرح کھب گئی۔ البسین کے چند مکانوں کی سفید دیواروں کو دھواں چاٹ رہا تھا۔ گولیوں کی آواز بھی ادھرسے ہی تیرتی آرہی تھی۔ وہ غصے میں بڑبڑاتاہواغار میں واپس آگیا اور کچے فرش پراوندھا لیٹ کرخنکی کو سونگھتا ہوا اونگھنے لگا۔ اس کے دونوں بیٹے جونزدیکی قصبے لوشہ میں ہونے والے ایک گھوڑوں کے میلے میں گئے تھے۔ شام کو لوٹے تو انکے چہرے اتر ہوئے تھے۔ پاپا، غرناطہ میں فرانکو کے فوجی داخل ہو گئے ہیں البسین کے باسیوں نے شارع چاپنیر پر بیری کیڈ کھڑا کرکے ان کا مقابلہ شروع کردیاہے۔۔۔ ہم بڑی مشکل سے یہاں تک پہنچے ہیں۔‘‘
لارنزد نے سرمیں پھٹتے درد کے گرم ریزوں کو ماتھے پر چپت لگا کر ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی اور بیزاری سے بولا، ’’یہ ہسپانویوں کی آپس کی لڑائی ہے ہم خانہ بدوشوں کا اس سے کیا تعلق جتنے زیادہ مریں اتنا ہی بہتر ہے۔ لاشوں کی جیبیں کاٹنا نسبتاً آسان کام ہے۔‘‘
تھوڑی دیر بعد آوے لا غار میں داخل ہوئی تووہ بھی نچڑے ہوئے کپڑوں کی طرح سفید اور سلوٹوں سے بھرپور تھی۔ ’’دیکھو پاپا انہوں نے میرے کپڑے بھی پھاڑدئیے۔‘‘
لارنزو کورہ رہ کر البسین کے باسیوں پرغصہ آرہاتھا کہ یقینی شکست کا سامنا کرنے کے باوجود وہ اتنی ڈھٹائی سے بیری کیڈ کا دفاع کیوں کررہے تھے۔ اور یوں وہ سارا دن غارکی تنہائی میں شراب سے لطف اندوز ہونے کی بجائے فلیئرز کے کڑوے سگریٹ پھونکتارہتاکہ تمام اہل خانہ نے خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد غار سے نکلنا چھوڑدیاتھا۔
ایک روز وہ تنگ آکر اپنے پرشورغار میں سے باہر نکلا اورالبسین کے گلی کوچوں میں بے مقصد گھومنے لگا۔ چندروز پیشتر کے چیختے چلاتے، پرہجوم اورزندہ البسین کی بجائے اس کے سامنے ایک مردہ محلے کے سناٹے تھے۔ صرف کبھی کبھار کسی بچے کے رونے کی گھٹی گھٹی آواز آتی اور بندہوجاتی جیسے کسی نے منہ پرہاتھ کاپتھر رکھ دیاہو۔ ویرانی کے علاوہ اسے جس چیز نے حیرت زدہ کیا سوکھے ہوئے فوارے اورخشک نالیاں تھیں جو عربوں کے زمانے سے آج تک کبھی خشک نہیں ہوئی تھیں۔
’’پانی کیوں نہیں چل رہا؟‘‘اس نے سوچا اور کندھے اچکا کر واپس غار کی جانب چل دیا۔
’’پانی کیوں نہیں چل رہا؟‘‘ اس نے بے دھیانی میں چھت کی طرف دیکھا جس کے ساتھ اس کا شراب کا مشکیزہ لٹک رہا تھا۔
’’انہوں نے بندکر دیا ہے۔‘‘ آرتورو نے آہستہ سے کہا۔
’’تم لوگ کیا پیتے ہو؟‘‘ اس نے مشکیزہ اتار کر ایک طویل گھونٹ بھرا۔
’’کچھ بھی نہیں‘‘ ان سب نے بے دلی سے جواب دیا۔ ’’پچھلے کئی روزسے پانی بند ہے۔ فوجیوں نے حدرہ سے پانی کھیچنے والے پائپ کاٹ دیئے ہیں۔‘‘ آندریس نے دانت کچکچاتے ہوئے کہا۔ ’’البسین کے رہنے والے پیاسے ہیں۔ و ہ اپنے باغوں میں سے پودے اکھاڑ کر ان کی جڑ یں چوس رہے ہیں۔ بیری کڈ پر لڑنے والے نیم بیہوشی کے عالم میں ہیں۔ عورتوں کی چھاتیاں سوکھ گئی ہیں۔ بچوں کی زبانیں ان کے منہ سے باہر لٹک رہی ہیں۔ مردہ سانپوں کی طرح۔‘‘
’’بچوں کی زبانیں؟‘‘ لارنزو بوکھلا گیا۔ ’’لیکن یہ تو ظلم ہے۔ ان کو تو پانی دینا چاہیے۔ بچے نیشنلسٹ یا ری پبلکن نہیں ہوتے۔۔۔ وہ تو صرف۔۔۔‘‘
’’ہمارا دماغ کیوں چاٹتے ہو، فرانکو سے جا کر پوچھو۔‘‘ اس کی بیوی چیخی۔ ’’کم از کم جب تک تمہارے درجن بھر مشکیزے خالی نہیں ہوتے تم پیاسے نہیں مرو گے۔‘‘
’’لیکن یہ تو ظلم ہے۔۔۔‘‘ لارنزو الکحل سے پھولتی زبان بار بار لبوں پر پھیر کر بڑبڑاتا رہا۔
اس شب لارنزو نے دو خالی مشکیزے کاندھے پر رکھے اور مقدس پہاڑی پر اگے ہوئے تھوہر اور ناگ پھنی کے پودوں تلے پوشیدہ اس قدیم غار میں اترا جس کا علم پورے غرناطہ میں صرف اسے ہی تھا۔ کہاجاتا ہے کہ موروں کے زمانے میں متعدد زیر زمین راستے البسین کو دریاکے پار الحمراء کے سرخ ایوانوں سے ملاتے تھے۔ صدیوں کا بوجھ ان خفیہ راستوں پر بھی پڑااور آہستہ آہستہ ان کے خالی پیٹ مٹی سے بھر گئے۔ عالم نو خیزی میں جب لارنزو نے اپنے ایک رقیب کو جسم میں میخیں گاڑ کر اسی کے دروازے پر مصلوب کیاتھا کہ وہ کسی پناہ گاہ کی تلاش میں ایک ایسے راستے کو دریافت کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ یہ زمین دوز راستہ اگرچہ بے حد مخدوش حالت میں تھا مگرلارنزد کا لچکیلا جسم اس میں سے ایک سیاہ ناگ کی طرح رینگتابل کھاتا دریائے حدرہ تک پہنچ جاتا۔ وہ کئی ماہ تک اس سرنگ میں روپوش رہا۔ بعد میں یہ خفیہ پناہ گاہ اس کی محرم بن گئی۔ بیوی سے ڈانٹ پڑتی تووہ چپ چاپ اس میں اتر کر پہروں کڑھتا رہتا۔ جسموں کے استعمال کے لیے بھی اس نے یہی جگہ مخصوص کر رکھی تھی۔ کبھی کبھار وہ تنہائی کا خواہش مند ہوتا تو شراب کا مشکیزہ کندھے پر ڈال کر اس میں غائب ہو جاتا۔ مگراس شب اسکے کندھے پر صرف خالی مشکیزے تھے۔
رات گئے جب لارنزد اپنے غار میں واپس آیا تو اس کا نم آلود جسم مٹی میں یوں لتھڑا ہوا تھا جیسے وہ قبر میں سے نکل کر آیا ہو۔ اس نے مشکیزوں کو بمشکل کاندھے سے اتارا اور زمین پر لیٹ گیا۔ ’’آرتورو! تم سب لوگ ایک ایک گھونٹ بھر لو۔۔۔ ہم خانہ بدوش ہسپانویوں کی نسبت زیادہ سخت جان واقع ہوئے ہیں۔۔۔ باقی پانی البسین میں لے جا اور پیاسے بچوں کے حلق ترکردو کہ بچے نیشنلسٹ یا ری پبلکن نہیں ہوتے۔
اگلے روز تک لارنزو کایہی معمول رہا۔۔۔ اور بالآخر فضائی حملے کی تاب نہ لاتے ہوئے بیری کیڈ ٹوٹ گیا۔ فرانکو کے فوجی البسین میں داخل ہوگئے۔
غار سے نکلنے سے پیشتر اس کے تینوں بچوں نے ایک مرتبہ پھر اس کی منت کی۔۔۔’’پاپا وہ سب کو قتل کررہے ہیں۔۔۔ ہم سیرانوادا کی پہاڑیوں میں روپوش ہونے کے لیے جارہے ہیں تم بھی ساتھ چلو۔۔۔ پاپا۔‘‘
لارنزد کی الکحل سے پھولی ہوئی زبان بمشکل حرکت میں آئی۔ ’’تم بزدل ہو۔۔۔وہ ہمیں کچھ نہیں کہیں گے۔۔۔ یہ ہسپانویوں کی آپس کی لڑائی ہے۔ ہم خانہ بدوشوں کا اس سے کیا تعلق؟‘‘
لارنزد کو ملٹری ٹریبونل کے سامنے پیش کیا گیا۔
’’یہ شخص بیری کیڈ پر لڑنے والے کمیونسٹوں کو پانی سپلائی کرتارہا ہے۔‘‘
لارنزد کی لاش کئی دن تک مقدس پہاڑی کی چوٹی پر گڑی صلیب سے جھولتی رہی۔
سیرانوادا پہاڑیوں کی پتھریلی عافیت میں اترکر ان تینوں نے مڑ کر پیچھے دیکھا۔ مقدس پہاڑی کے سفید جسم پرگڑی صلیب سے لٹکتا ہیولہ ایک پتلے کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔
ہسپانیہ ایک وسیع ملک ہے۔ صحرائی وسعتوں، برف پوش پہاڑوں اور گرد آلود میدانوں کا ملک۔ ان تینوں نے انتینوں جغرافیائی حالتوں میں کئی ماہ تک روپوشی کا سفرکیا۔
ایک تپتی ہوئی جھلسا دینے والی دوپہر نے انہیں دریائے حدرہ کے کنارے آباد قدیم قصبے ثوریا میں دیکھا۔ دریا کا خنک پانی ان کے جھلسے ہوئے نیم سیاہ بدنوں میں جذب ہوا توانہوں نے اپنے گرد نگاہ ڈالی۔۔۔ پسینے سے نچڑتا ایک خاموش ہجوم مقامی بل رنگ کی جانب قدم گھسیٹ رہا تھا۔ وہ تینوں ان گرم جسموں کے الاؤ میں گم ہوگئے۔
کھنڈر نما بل رنگ کا نصف حصہ سائے میں سستا رہا تھا اور بقیہ نصف حصے کو دھوپ کے جلتے لب چوس رہے تھے۔ اکھاڑے کے درمیان میں ایک سیاہ بل کا بھاری بھرکم دھبہ لرزرہا تھا۔۔۔ اور اسکا کمر خمیدہ مالک ہاتھ فضا میں چبھوئے شور مچارہا تھا۔ ’’آئیے اور اس بردتیوبل کے ساتھ دودو ہاتھ کیجئے۔ پانچ منٹ کے کھیل کے لیے صرف دس پسیتے۔‘‘
دیہاتی نوجوان بوسیدہ پتلونیں اڑستے، غرور سے اپنی جنگلی گھاس بالوں پر ہاتھ پھیرتے اکھاڑے میں داخل ہوتے اور دس پسیتے مالک کی رالیں ٹپکاتی ہتھیلی پررکھ کر پانچ منٹ کے لیے بل کے آگے پیچھے ہوہو کر کے دوڑتے اپنی بہادری جتاکر ہانپتے ہوئے واپس اپنی نشستوں پر آبیٹھتے۔ بڑے لڑکے آرتورو نے سیاہ آنکھیں میچ کر بل کو غور سے دیکھا۔ ’’آندریس! ‘‘اس نے بھائی کے کندھے پرہاتھ کا گدھ بٹھاتے ہوئے کہا۔ ’’فرانکو کیسا ہے؟‘‘
آندریس کی آنکھوں سے سیاہ حیرت پھوٹی اور بہہ نکلی ’’مجھے کیامعلوم آرتورو، میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا۔‘‘
’’میں نے دیکھا تو نہیں لیکن جانتی ہوں۔‘‘ آوے لا نے گلے میں ہاتھ کی کپی اتاری اور پسینے سے شرابور چھاتیوں کو پونچھا۔ ’’وہ اس موت کی طرح سیاہ ہے جس میں اس نے ہمارے پاپا کے جسم کو ڈبویا ہے۔‘‘
آرتورو کی نشست پراس کا بوجھ ختم ہوگیا وہ اٹھا۔ پہچان کا لمحہ آن پہنچاتھا۔ ’’ہم خانہ بدوشوں میں روایت ہے کہ اگر انتقام لینے کے لیے دشمن نہ مل سکے تواس کی خصلت کے کسی اور شخص کو موت کے گھاٹ اتاردو۔‘‘ اسی لمحے اس کے شانوں کے ساتھ دو سرنمودار ہوئے جو آندریس اورآوے لا کے تھے۔ ’’آرتورو تم نہیں جا سکتے‘‘ سیاہ بل بے حد طاقتور ہے۔‘‘ لیکن تین سروں کی اس قطار میں سے ایک سر نے حرکت کی اوربل رنگ کے درمیان جا کھڑا ہوا۔
آرتورو نے دس پسیتے ہتھیلی کی رال پر چپکائے اور سیاہ بل کے سامنے گردن ٹیڑھی کرکے کھڑا ہوگیا۔۔۔ بل کی چمکتی آنکھوں میں ایک پتلا جھول رہا تھا۔۔۔ لارنزد کی لاش کئی روز تک مقدس پہاڑی کی چوٹی پر گڑی صلیب سے جھولتی رہی۔
’’ہے تورو‘‘ آرتورو نے ریت پر تھوکا اور نفرت کا لعاب منہ سے پونچھ کربل کو ششکارا۔ بل کی سیاہ آنکھوں میں ایک پتلا جھول رہاتھا۔ میں نے بستیوں کو ویران کیا ہے۔ بچوں کو پیاسا مارا ہے۔ نصف ہسپانیہ کو ہلاک کرڈالا ہے۔ یہ خانہ بدوش گرہ کٹ کا بچہ میرے مقابلے پر۔۔۔ ہم خانہ بدوشوں میں روایت ہے کہ اگر انتقام لینے کے لیے دشمن۔۔۔
آرتورو تپتی ریت پر پھیلا اپنے جسم میں اترتے ہوئے دو سینگوں کو تھامے بل کی آنکھوں میں جھانک رہا تھا۔۔۔ اس کی مردہ آنکھیں کھلی تھی اور۔۔۔ بل کی سیاہ آنکھوں میں ایک پتلا جھول رہا تھا۔
اس شب آندریس اور آوے لا نے دریائے حدرہ کی ریت میں اپنے بھائی کا سرد جسم دفن کیا۔ ’’ہمیں قسم ہے خانہ بدوشوں کے تمام دیوی دیوتاؤں کی۔۔۔ ہم جب تک سیاہ بل کو ہلاک نہ کردیں گے ایک دوسرے کو ناموں کی بجائے حرامی سور کہہ کر پکاریں گے۔
ہسپانیہ ایک وسیع ملک ہے۔ صحرائی وسعتوں، برف پوش پہاڑوں اور گرد آلودمیدانوں کا ملک۔ ان دونوں نے ان تینوں جغرافیائی حالتوں میں کئی برس تک سفر کیا۔ اس سفر کی سمت کاتعین سیاہ بل کے سموں کے نشان تھے۔ بل کے مالک کابوڑھا ذہن جانتا تھا کہ دونیم سیاہ جسم بدلتی رتوں میں ان کاتعاقب کررہے ہیں۔ گرم، سرد نم آلود موسموں میں وہ اپنی روزی کے واحد وسیلے کی حفاظت کرتا، ایک لمحہ کے لیے بھی غافل نہ ہوتا۔۔۔ آندریس اور آوے لا کے لباسوں میں اڑے ہوئے خنجر کئی بار زنگ آلود ہوئے مگر انہیں ہسپانیہ کی دھرتی سے رگڑ کر پھر سے تیز کر لیا جاتا۔۔۔۔ کون جانے کب؟
قشتالیہ کے وسیع ریگزاروں میں پہاڑی عقابوں نے نیچے دیکھا۔۔۔ کانٹے دار جھاڑیوں اور بگولوں کے درمیان ایک بوڑھا ایک سیاہ دھبے پرہاتھ رکھے یوں چل رہا ہے جیسے وہ کسی بل کا بھاری اور کھردرا جثہ نہ ہو بلکہ صابن کی ایک گیلی ٹکیہ ہو جو ذرا سی غفلت سے اس کے ہاتھوں سے پھسل جائے گی۔ اورکچھ فاصلے پر دو جسم جن کی چار سیاہ آنکھیں صرف ایک کالے دھبے پرجمی رہنے کے لیے کھلی تھیں۔
موڑوں کے ایک پہاڑی حصار کے کھنڈروں میں رہنے والے ایک الو نے آنکھیں گھمائیں اور ٹوٹے ہوئے جھروکے میں سے اس سڑک کو دیکھا جس پر زیتون کے باغ امڈے چلے آرہے تھے۔۔۔ اور سڑک پر۔۔۔ ایک بوڑھا مگر اب بہت بوڑھا۔۔۔ ایک سیاہ بل مگر اب چمکیلے جسم کی بجائے ماند پڑتی ہوئی کھال اورکچھ فاصلے پر۔۔۔ چار آنکھیں۔۔۔ منتظر!
وہ اپنے سفر کے دوران وادی غرناطہ میں سے بھی ایک مرتبہ گزرے۔ مقدس پہاڑی پر گڑی صلیب برسات کی بوچھاڑوں اور گرما کی حدتوں سے شکستہ ہو کر گرنے کوتھی۔۔۔ جھولنے والا پتلا اب غائب تھا مگر چار آنکھیں۔۔۔ منتظر!
وہ اپنے سفر کے دوران وادی غرناطہ میں سے بھی ایک مرتبہ گزرے۔ مقدس پہاڑی پرگڑی صلیب برسات کی بوچھاڑوں اور گرما کی حدتوں سے شکستہ ہو کر گرنے کو تھی۔۔۔ جھولنے والا پتلا غائب تھا مگر۔۔۔ آندریس اور آوے لا کے لیے نہیں کہ وہ اسے بل کی آنکھوں میں جھولتا ہوا دیکھ رہے تھے۔
ان دونوں نے ان تینوں جغرافیائی حالتوں میں سات برس تک سفر کیا۔ ایک جانور، ایک انسان۔۔۔ دونیم سیاہ جسم۔
بالآخر بل بوڑھاہو گیا۔۔۔ وہ جو پہلے اس کے ظلم سے خائف تھے۔ اب زیر لب احتجاج کرنے لگے۔ اس کی دہشت اور طاقت کو دھرتی نے دھیرے دھیرے ختم کر دیا۔۔۔ بل بوڑھا ہوا تو ناکارہ ہو گیا کہ اب اس کے ساتھ کھیلنے پر کوئی بھی آمادہ نہ ہوتا۔۔۔ ایسے بیکار جسم کا اور کیا مصرف ہو سکتا ہے سوائے اس کے کہ اسے کسی بوچڑ خانے میں فروخت کر دیا جائے۔
کمر خمیدہ بوڑھا بوچڑ خانے کے جس دروازے میں سے پستیوں سے بھری جیبیں لے کر نکلا۔ اسی دروازے میں کچھ دیر بعد آندریس اور آوے لا کے جسم داخل ہوئے۔ انہوں نے اپنے خنجر آج صبح ہی تیز کئے تھے۔
بل کو اس کے بڑھاپے نے بوچڑ خانے کے کچے فرش پر بے سدھ لٹارکھا تھا۔ ان دونوں نے اس کی آنکھوں میں جھانکا۔۔۔ ان میں ظلم کی تصویر ابھی تک واضح اورمتحرک تھی کہ اس کے رنگ کبھی ماند نہیں پڑتے۔
بوچڑ خانے کا مالک ان کے قریب آیا لیکن زیادہ قریب نہیں کہ خنجر آج ہی تیز کیے گئے تھے۔ ’’تم کس نیت سے یہاں آئے ہو؟‘‘
’’یہ سیاہ بل ہمارے پاپا کا قاتل ہے۔۔۔ اس کے سینگ ہمارے بھائی کے جسم میں لٹوکی طرح گھومے تھے۔۔۔ ہم صرف اسے اپنے ہاتھوں سے مارنے کی اجازت چاہتے ہیں۔‘‘
بوچڑ خانے کے مالک کو اسی شام یہی کام کافی تگ و دو کے بعد خود سرانجام دینا تھا۔ بھلا اسے کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔
’’تمہیں اجازت ہے۔‘‘ اس نے کہا اور چلا گیا۔
آوے لا گھٹنوں کے بل یوں بیٹھ گئی جیسے وہ کسی کلیسا میں عبادت کرنے والی ہو۔ اس نے اپنا خنجر سیاہ بل کی پھولی ہوئی شہ رگ پر رکھا اور اس کی آنکھوں میں اپنے پاپا کی تصویردیکھی۔ شہ رگ میں سے بوڑھا بدبو دار خون ایک آبشار بن کر ابلا اور آوے لا کے سینے پر پھیل گیا۔
آوے لا نے گریبان میں ہاتھ ڈال کر اپنا لباس چاک کر ڈالا۔۔۔ اس کی چھاتیوں نے آگے بڑھ کر اپنے مسام کھو لے اور ابلتے خون کو چوسا، پیاس بجھائی۔۔۔ پھر آندریس اسی طرح گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔ اس نے بل کی ڈھلکی ہوئی گردن کو دونوں ہاتھوں میں پکڑا اور اس کی آنکھوں میں جھانکا۔ بل کی مردہ آنکھوں میں اب بھی ایک پتلا دکھائی دے رہا تھا لیکن ساکت اور معدوم ہوتاہوا۔۔۔ خنجر کی نوک نے سیاہ آنکھ میں کھب کر اسے اپنے مسکن سے یوں ادھیڑا جیسے انار کے دانے کو ناخن سے اڑس کرنکالا جاتاہے۔ سات برسوں سے زندہ جھولتے ہوئے پتلے کی شبیہ اوجھل ہوگئی۔ دوسری آنکھ کو بھی خنجر نے جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ پھر ان دونوں نے آنکھوں کے خالی گڑھوں میں گزرے وقت کی بیتے سفر کی تمام نفرت سمیٹ کر تھوکا۔۔۔ آخری وار بل کے پیٹ پر ہوا۔ ان دونوں نے جب اس کا نیم سیاہ کلیجہ ہاتھوں میں لیا تو وہ ابھی تک تھرتھرارہا تھا۔۔۔ وہ بوچڑ خانے سے باہر آگئے۔۔۔ ویران، گردآلود گلی کے درمیان میں انہوں نے ایک الاؤ روشن کیا اس پر بل کا سیاہ پڑتا ہوا کلیجہ بھونا اور پھر اسے حلق سے اتار کر اپنے وطن کی طرف ایک روشن دوپہر کی جانب لوٹ گئے۔