کیا آپ جانتے ہیں کہ ستاروں کے جُھرمٹ کیا ہوتے ہیں؟
رات ہوتےہی آسمان طرح طرح کے ستاروں سے بھر جاتاہے ۔آپ نے بھی تاروں بھری راتوں میں آسمان کوغور سے دیکھا ہوگا۔آپ کو آسمان پر کئی جگہ پر ستارے جُھرمٹ کی صورت میں نظر آئے ہوں گے۔پُرانے زمانے میں بھی دنیا کے تقریباَسبھی حصوں میں لوگ ستاروں کے جُھرمٹوں کا مشاہدہ کیا کرتے تھے۔اس مشاہدے کی بناءپر ان جُھرمٹوں کے نام بھی رکھے گئے۔زمانہ قدیم کے ستارہ شناسوں نے ستاروں کی مدد سے انسانوں اور جانوروں کے خیالی خاکے بھی تیار کیے۔مثال کے طور پر امریکہ کے ’’انڈین‘‘بھینسےکے چمڑے پریہ خاکے بناتے تھے اور قدیم یونانیوں اور رومیوں نے آسمان پر اپنے دیوتاؤں اور سورماؤں کی شبیہیں تلاش کرلیں۔
آج کل استعمال ہونے والےستاروں کے جُھرمٹوں کے نام رومیوں کے زمانے سے بلکہ ان سےبھی زیادہ قدیم یونان کے لوگوں کے ذریعہ ہم تک پہنچتے ہیں۔یونانی ستاروں کے بارے میں جو علم رکھتے تھے اس میں سے کچھ علم ان کو قدیم بابل اور مصر کے باشندوں سے حاصل ہواتھا۔
بابل کے لوگوں نے ستاروں کی کچھ شکلوں کے نام اپنے جانوروں،بادشاہوں،ملکاؤں اور اپنی داستانوں کے سورماؤں کے ناموں پر رکھے۔پھریونانیوں نے یہ نام بدل کر اپنی دیومالائی شخصیتوں کے ناموں پر رکھ لیے۔جیسے ہرکولیس،اورین(جبار)وغیرہ وغیرہ۔رومیوں نے ان ناموں میں مزید تبدیلیاں کیں۔یہی قدیم نام اب بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔لیکن ان ناموں کےخیالی خاکوں اور ستاروں کے جھرمٹوں میں کوئی علمی رشتہ یا کوئی اور شکلی مناسبت تلاش کرناممکن نہیں۔مثلاَ’’ایکولا‘‘ شاہین کو کہا جاتا ہے،’’کے نس میجر‘‘اور ’’کےنس مائز‘‘بڑے اور چھوٹے کتے کو کہتے ہیں،جب کہ لبرا(میزان)کا مطلب ترازو ہے مگر ہمیں ستاروں کے جھرمٹ ان شکلوں سے ملتے جلتے دکھائی نہیں دیتے۔
ہم زمین کے شمالی نصف کرے میں رہتے ہیں،اس لیے ہمیں ایک وقت میں آسمان کا ایک حصہ نظر آتا ہے۔جنوبی نصف کرے میں بسنے والوں کے سامنے آسمان کا دوسرا حصہ رہتاہے۔انہیں ستاروں کے وہ جھرمٹ دکھائی دیتے ہیں جو ہمیں نظر نہیں دیتے۔
150ءمیں مشہور ماہر فلکیات بطلیموس نے ستاروں کے اڑتالیس جھرمٹوں کے نام لکھے جو اس کےمشاہدے میں آئے تھے۔یہ فہرست پورے آسمان کا احاطہ نہیں کرتی۔بعد کے ماہرینِ فلکیات نے بطلیموس کی فہرست میں کئی اضافے کیے۔آج کل ماہرین فلکیات آسمان پراٹھاسی جھرمٹوں کی موجودگی کا علم رکھتے ہیں (ستاروں کا جھرمٹ آسمان کے اس حصے کو کہا جاتا ہےجہاں بہت سے ستارے قریب قریب نظر آتے ہوں)جب مناسب فاصلے سے دیکھا جائے تو ہر ستارہ کسی نہ کسی جھرمٹ میں پایا جاتا ہے۔جس طرح ہمارے وطن کا کوئی شہرکسی ایک صوبے میں واقع ہوتاہے۔
ستاروں کے جھرمٹ کی فرضی سرحدیں بہت بے قاعدہ ہوتی تھیں۔ان میں سے زیادہ تر کُروی ہوتی تھیں لیکن 1928ءمیں ماہر فلکیات نے فیصلہ کیا کہ ان سرحدوں کو اس طرح سیدھا کیا جائے کہ ہر جھرمٹ کے چوکھٹے میں صرف سیدھے خط شامل ہوں۔