ستم! یہ غزل کا ایک شعر ہے
کس نے جینز کری ممنوع
پہنو اچھی لگتی ہو
عربی میں امراؤ القیس، فارسی میں سعدی، اُردو میں غالب، بنگالی میں ٹیگور، پشتو میں خوشحال خان خٹک اور انگریزی میں شیکسپیئر نے عمدہ سے عمدہ مضامین باندھے لیکن اس پائے کے نہیں جو اکیسویں صدی کے قحط الرجال کے دور میں لائل پور کے ایک بزعمِ خویش شاعر نے اپنے اس شعر میں باندھ ڈالے۔
شعر ملاحظہ فرمائیں۔۔۔ فرماتے ہیں
کس نے جینز کری ممنوع
پہنو اچھی لگتی ہو
مشکل الفاظ کے معنی:
جینز : ایک خاص قسم کی پتلون جو اہل بصارت کے ہاں لباس اور اہل بصیرت کے ہاں ننگیز (عریاں) ہے۔
کری : معلوم تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی سے اس قسم کا صیغۂ ماضی سرزرد ہوا ہے۔
شانِ ورود :
شاعر کی محبوبہ کا تعلق ایسے خاندان سے ہے جہاں جینز اور اس قسم کے اشتہا انگیز لباس پہننا تاکہ مشتہی نظروں کے من و رنجن کا سامان ہو سکے، ممنوع ہے۔ لیکن وہ اپنے پُرکھوں کی روایات اور اپنے پرم پرا سے اختلاف رکھتی ہے۔ اور چاہتی ہے کہ وہ جینز پہنے ، لیکن بوجوہ وہ نہیں پہن پارہی ہے۔
تشریح :
جیسا کہ شانِ ورود کے ضمن میں گزرا کہ شاعر کی محبوبہ مخمصے کا شکار ہے کہ وہ جینز پہنے یا نہیں۔ اسی الجھن کا تذکرہ وہ اپنے ہم دم و ہم راز، اپنے عاشقِ بسمل، اپنے بلما و پریتم سے کر بیٹھتی ہے۔ یہ سنتے ہی شاعر کے اندر کا علامہ مرغینانی اور ابن ہمام جاگ اٹھتا ہے۔ تیوری چڑھ جاتی ہے، من ہی من میں "شامی" ، "عالمگیری" اور نہ جانے کتنی کتبِ فتاویٰ کا استحضار فرما لیتے ہیں اور ایک شانِ مفتیانہ سے بصورتِ شعر ایک فتویٰ جاری کرتے ہیں، جس کا پہلا مصرع ایک تہدید آمیز سوال پر مشتمل ہے کہ
"کس نے جینز کری ممنوع؟ "
جبکہ دوسرے مصرع میں اپنے منصبِ افتاء سے یکسر اتر کر ایک حکم نما درخواست کرتے نظر آتے ہیں کہ "پہنو"۔
یاد رہے کہ موصوف چونکہ ہمیشہ مدلل بات کرتے ہیں اس لیے حکم جاری کرنے کے متصلاً بعد اس کی علت بھی ان الفاظ کے ساتھ بیان فرماتے ہیں کہ "اچھی لگتی ہو"۔
بلاغت :
پہلا مصرع میں استفہامِ انکاری ہے۔
اور "کری" کا لفظ اس شعر کی جان ہے، شاعر اس کی جگہ کوئی مہذب اور شائستہ لفظ بھی استعمال کر سکتے تھے ،لیکن انہوں نے یہ گوارا نہیں کیا۔
نوٹ : اس عظیم الشان "فاتوا بسورۃ من مثلہ" قسم کے شعر کہنے کے بعد یہ قوم سے معافی نہیں مانگ رہے، بلکہ داد وصول رہے ہیں۔