ستم کے پردے میں پھر کرم کر سکون کو اضطراب کر دے

ستم کے پردے میں پھر کرم کر سکون کو اضطراب کر دے
دل فسردہ کو زندگی دے شباب کو پھر شباب کر دے


یہ مانا لاکھوں حکایتیں ہیں ہزاروں دل میں شکایتیں ہیں
مگر کہیں کیا جو اک نظر میں کوئی ہمیں لا جواب کر دے


ٹھہر دل بے قرار دم بھر وہ آئے ہیں بے حجاب ہو کر
سنبھل کہ یہ اضطراب نو ہی کہیں نہ حائل نقاب کر دے


وہ عالم بے خودی ہو دل پر وہ کیفیت بے حسی کی چھائے
جو آرزوئے کرم مٹا دے جو بے نیاز عتاب کر دے


نہ آئے گا لب پہ حرف مطلب نہ کھل سکے گی زبان کیفیؔ
نگاہ حسرت کو ترجماں کر خموشیوں کو جواب کر دے