ستم ایجاد کے انداز ستم تو دیکھو

ستم ایجاد کے انداز ستم تو دیکھو
امتحاں عشق و ہوس کا یہ نیا رکھا ہے
ہر گھڑی عاشق مضطر سے وہ ملتی ہے شبیہ
نقشہ بگڑی ہوئی صورت کا بنا رکھا ہے
شکوۂ ہجر سے اے داغؔ اثر کی امید
آپ نے نام شکایت کا دعا رکھا ہے