ستاروں کے پیام آئے بہاروں کے سلام آئے
ستاروں کے پیام آئے بہاروں کے سلام آئے
ہزاروں نامہ ہائے شوق اہل دل کے کام آئے
نہ جانے کتنی نظریں اس دل وحشی پہ پڑتی ہیں
ہر اک کو فکر ہے اس کی یہ شاہیں زیر دام آئے
اسی امید میں بیتابی جاں بڑھتی جاتی ہے
سکون دل جہاں ممکن ہو شاید وہ مقام آئے
ہماری تشنگی بجھتی نہیں شبنم کے قطروں سے
جسے ساقی گری کی شرم ہو آتش بہ جام آئے
کوئی شاید ہمارے داغ دل کی طرح روشن ہو
ہزاروں آفتاب اس شوق میں بالائے بام آئے
انہیں راہوں میں شیخ و محتسب حائل رہے اکثر
انہیں راہوں میں حوران بہشتی کے خیام آئے
نگاہیں منتظر ہیں ایک خورشید تمنا کی
ابھی تک جتنے مہر و ماہ آئے نا تمام آئے
یہ عالم لذت تخلیق کا ہے رقص لافانی
تصور خانۂ حیرت میں لاکھوں صبح و شام آئے
کوئی سردارؔ کب تھا اس سے پہلے تیری محفل میں
بہت اہل سخن اٹھے بہت اہل کلام آئے