سسکیوں ہچکیوں آہوں کی فراوانی میں

سسکیوں ہچکیوں آہوں کی فراوانی میں
الجھنیں کتنی ہیں اس عشق کی آسانی میں


یہ ترے بالوں کا تالاب کی تہ کو چھونا
حالت خواب میں یا عالم عریانی میں


بے حجابانہ کسی لہر کا تجھ تک آنہ
پھر ترے جسم کا بہہ جانا گھنے پانی میں


کہکشاؤں کا غزالوں کا غزل زادوں کا
دور و نزدیک سے آنا تری مہمانی میں


رات کا جھکنا تری پشت پہ دل داری کو
باغ کے پیڑوں کا آ جانا رجز خوانی میں


بام و در دیکھتے جاتے ہیں کھڑے سکتے میں
اک ستارے کا توارد تری پیشانی میں


مرمریں انگلیاں اک دل پہ لکھیں حال حنا
پھول آواز کا کھل جائے پشیمانی میں


چاند مخروطی ابھاروں پہ شعاعیں پھینکے
اس قدر محو تجھے دیکھ کے حیرانی میں


سایۂ ثابت و سیار کے ہالے میں چلوں
اور جہانوں میں رہوں تیری نگہبانی میں