سر سید احمد خاں اور ان کے کام
یہ وہ سب سے پہلا مضمون ہے جو سرسید کے کاموں کی تائید اور حمایتیں مولانا حالی نے لکھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مولانا حالی سرسید کے اس وقت سے ساتھ تھے جب کہ انہوں نے ولایت سے واپسی کے بعد ابھی اپنی تعلیمی اور اصلاحی تحریک شروع نہیں کی تھی۔ صرف قومی خدمت کا خیال ظاہر کیا تھا اور قوم کی اصلاح کے لئے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کی شکل میں پہلا قدم اٹھایا تھا۔ (محمد اسماعیل)ان دنوں میں جناب مولوی سیدا حمد خاں بہادر تمام ہندوستان کی تربیت میں عموماً اور ہماری قوم کی تہذیب اوراصلاح میں خصوصا جواں مردانہ سعی اور کوشش کر رہے ہیں، اوراپنے اس احسان کی بنیادڈال رہے ہیں جس کے بوجھ سے ہم اور ہمارے اخلاق کبھی سبکدوش نہ ہوں گے۔ اہل ملک میں سے جولوگ سید صاحب کی سرگرمی اور جاں فشانی کوشائبہ اغراض نفسانی سے پاک اور منزہ نہیں جانتے، یا ان کی رائے کو قرین صواب نہیں سمجھتے، یا ان کو مسلک ہدی سے متجاوز رکھتے ہیں، اگرچہ میں نہ کبھی پہلے ان کا ہم زبان ہوا، نہ اب ہوں اور امید ہے کہ آگے کو بھی نہ ہوں گا، مگر اس میں شک نہیں کہ اس تحریر سے پہلے ان کے باب میں میری رائے کبھی تذبذب اورترددسے خالی نہیں رہی، لیکن الحمدللہ کہ میرے تذبذب کا منشا کوئی داعیہ نفسانی نہ تھا، لہٰذا میرے خلوص نے مجھے اس مرض سے نجات دی اور جورائے میری اب ہے غالبا ًیہی قرین صواب بھی ہے۔میرے نزدیک سید صاحب کی نسبت لوگوں کا سوء ظن بہ حسب اختلاف طبائع ان چار وجہوں سے کسی نہ کسی وجہ پر مبنی ہے،۱۔ یا تو یہ بات ہے کہ ہم جنسوں کی خیرخواہی اور ان کی بہبودگی کے لئے تہ دل سے کوشش کرنی اور اپنے عزیز وقت کا ایک معتدبہ حصہ خاص ایسے کام میں صرف کرنا اور بہ حسب متقضائے مقام، عقلی اور مالی تدبیروں میں مضائقہ نہ کرنا اس زمانے میں ایسا نادرالوجود ہے کہ اگر مردان خدا میں سے کوئی جواں مرد اس راہ میں قدم رکھتا ہے تو وہ شوائب غرض سے پاک نہیں سمجھا جاتا اوراس کا خلوص ریاکاری کے سوا اور کسی بات پر محمول نہیں ہوتا۔۲۔ یا جیسا کہ ہرقوم، ہر ملک اور ہر زمانے میں جن لوگوں نے گزشتہ زمانے کی رسوم وعادات پراعتراض کیا ہے، یا سلف کے قانون معاشرت میں کوئی نیا انقلاب پیدا کرنا چاہا ہے، وہ ضرور ہدف طعن و ملامت ہوئے ہیں، اسی طرح سید صاحب کے حسن قبول میں خلل واقع ہوا۔۳۔ یا یہ کہ سید صاحب اپنی صاف باطنی اور کھرے پن سے بعض کلمات ایسے کہہ اٹھتے ہیں جن کو سن کربعض سامعین کا حوصلہ تنگی کرتا ہے اور وہ کلمات بجائے محبت کے ان کے دلوں میں مخالفت کی بنیاد ڈالتے ہیں۔۴۔ کیا عجب ہے کہ سید صاحب کاتقرب سلطانی بھی کسی تنگ ظراف اور تنگ چشم کی نظروں میں کھٹکتا ہو۔ 1 ان چاروں وجوہات میں سے کوئی وجہ ایسی نہیں معلوم ہوتی جس کی طرف کچھ التفات کیا جائے اور جس سے ان کی حقیقی اور نفس الامری خوبیوں کو کچھ ضرر پہنچے۔اور بعض لوگ سید صاحب پر جواعتراض کرتے ہیں کہ اولاد کی دنیوی تعلیم میں اس قدر کوشش کرنی اور آداب دین سے بالکل کورا رکھنا کہاں تک قرین صواب ہے؟ سید صاحب پر یہ بھی اعتراض ہوتا ہے کہ لباس و طعام وغیرہ میں ابنائے جنس کی مخالفت پر اس قدر مبالغہ کرنا جیسے کوئی فرض و واجبات پر کرتا ہے اور جو نتائج قوم کی تالیف اور موافقت پر مترتب ہوتے ہیں ان پر لحاظ نہ فرمانا، کون سی مصلحت کا متقضا ہے؟ پہلی بات کا جواب دینا ہمارے ذمہ نہیں کیوں کہ جو امور سیدصاحب کی ذات خاص سے متعلق ہیں وہ ہماری بحث سے خارج ہیں۔ دوسرا امر بے شک ایسا ہے کہ جب تک اس کا جواب نہ دیا جائےگا، اس وقت تک سیدصاحب اوران کے خاص مددگار اپنے ذمہ سے فارغ نہ ہوں گے۔ اور میں صرف اس جواب پر اکتفا کرتا ہوں کہ میں نے سیدصاحب کے معصوم ہونے کا دعویٰ نہیں کیا، مگراس قدر ضرور جانتا ہوں کہ آج سید صاحب اپنی کوششوں کے اعتبار سے اس حدیث کے صحیح مصداق ہیں کہ ’’سید القوم خادمہم۔‘‘ سید صاحب کے کارنامے، ۱۔ کتاب، خطبات احمدیہ، جو انہوں نے لندن میں جاکر تالیف کی ہے، ظاہر ہے کہ اپنے لئے ایک عمدہ ذخیرہ آخرت کا مہیا کیا ہے۔ اور کیا عجب ہے کہ فریضہ حج جو باوجود استطاعت اور قرب مسافت کے ان سے ادا نہ ہو سکا، اس کی تلافی اس تالیف سے ہو جائے، مگر قوم کو بھی اس احسان کی شکرگزاری سے چارہ نہیں۔ اگرچہ اس کتاب میں اکثرمضامین اور خیالات ایسے ہیں جن میں ہم جناب مؤلف کو منفرد نہیں کہہ سکتے لیکن اوربہت سی حیثیتیں ایسی ہیں جن کے اعتبار سے اس کتاب کو اثبات نبوت کی پہلی کتاب کہنا چاہئے اور جن کے لحاظ سے یہ کہنا غیر موزوں نہیں کہ آج مولوی سید احمد خاں صاحب کے سوا دوسرے سے اس کام کا سرا نجام ہونا محال تھا۔۲۔ رعیت کی آزادی، جو اس سلطنت کی بے بہا اور برگزیدہ خاصیتوں میں سے ایک خاصیت ہے اور جس کی حقیقت نہ جاننے سے سلطنت کی بڑی خوبی ہماری آنکھوں سے چھپی ہوئی تھی، اگر سچ پوچھئے تو اس کی معرفت کا دروازہ جو ہم پر کھلا، اس کی کنجی سید صاحب کی آزاد تحریریں ہیں۔ ہم کو وہ زمانہ یاد ہے کہ ایام غدر کے بعد ہنوز بغاوت کی آگ مدھم نہیں ہوئی تھی اور گورنمنٹ کی نگاہ تمام ہندوستانیوں پرعموما ًاور مسلمانوں پرخصوصاً غضب آلود پڑی تھی اور چند نااہلوں اور خیرہ سروں کے الزام نے برٹش انڈیا کی کل قوموں کو خوف و رجا اور امیدوبیم کے بھنورمیں ڈال رکھا تھا، اورکیا دوست اور کیا دشمن اور کیا مخالف اور کیا موافق سب کے دلوں پر رعب سلطنت چھایا ہوا تھا، اس وقت اس اولوالعزم جواں مرد نے وہ کام کیا جس سے گورنمنٹ کی حق پسندی اور حق شناسی رعایا پر، اور رعایا کی بے گناہی اور بے جرمی گورنمنٹ پر ’’کالشمس فی رابعۃ النہار‘‘ آشکارا ہو گئی۔ رسالہ اسباب بغاوت ہند 2 کا لکھنا اگرچہ سید صاحب کی آزاد اور بے باک طبیعت کی بے شمار موجوں میں سے ایک موج تھی۔ لیکن ہمارے گراں بار کرنے کویہ احسان کچھ کم نہ تھا۔۳۔ انگلستان سے جو وہ ہر فن اورعلم کی منتخب کتابیں اپنے ساتھ لائے ہیں اور یہاں ان کے اردو میں ترجمے کرانے کی سبیلیں نکالنے میں سرگرم ہیں، اگرغور سے دیکھئے تو یہ ہمارے ان مقاصد جلیلیہ میں سے ہے جن کے حاصل ہونے کی توقع ہم کو اس سے پہلے گورنمنٹ کے سوااور کسی سے نہ تھی اور جن پر ہمارے وہ کام اٹکے ہوئے ہیں جن کے نہ ہونے سے ہم پر ’’انسان بالفعل‘‘ کا اطلاق اب تک صحیح نہیں ہوا۔۴۔ پرچہ تہذیب الاخلاق جو سید صاحب کی حسن توجہ سے ابھی جاری ہوا ہے 3 یہ بھی ہماری حدت بصر اور تیزی نظر کے لئے ایک بہت عمدہ وسیلہ ہے۔ بعض لوگ اس پریہ اعتراض کرتے ہیں کہ ’’امرمعاش میں اس قدر منہمک ہونے کی ترغیب دینی گویا امر معاد کی طرف سے بالکل ذہول اور غفلت کا پردہ ڈالنا ہے، کیوں کہ چین، مصر اور یونان کی تواریخ سے معلوم ہوتاہے کہ ان لوگوں کی عقل معاش کو جس قدر ترقی ہوتی گئی، اسی قدرعقل معاد میں تنزل ہوتا گیا، اور رفتہ رفتہ امردین میں ایسے کوتاہ بیں اور ناعاقبت اندیش ہو گئے کہ ان کی حماقت کی مثالیں شمار اور بیان کی حد سے باہر ہیں۔ اور اب یورپ کی اعلی درجے کی ترقی سے جو نتائج دین اور مذہب پر مترتب ہوئے ہیں وہ ایسے روشن اور ظاہر ہیں کہ ان کے بیان کرنے کی حاجت نہیں۔‘‘ اگرچہ یہ اعتراض ایسا نہیں ہے جس سے ’تہذیب الاخلاق‘ کی خوبی کو دھبہ لگے لیکن اس سے بچنے کے لئے میانہ روی اختیار کرنی اور اعتدال کی حد سے تجاوز نہ کرنا قرین صواب ہی نہیں بلکہ واجب ہے۔ اور اس پرچے کا مقبول خاص وعام ہونا زیادہ تر اسی بات پر موقوف ہے۔۴۔ علی گڑھ سوسائٹی 4 جو اپنے بانی کے حسن سلیقہ اور نیک نیتی پر گواہی دیتی ہے اور جس کی دیکھا دیکھی اور بہت سی علمی مجلسیں ہندوستان میں منعقد ہوئیں اگرچہ آج تک اس کی خوبی کو نہیں پہنچیں۔ اس کی مثال ہمارے نزدیک ایسی ہے جیسے ایک خشک پودے میں پانی دیا جائے۔ جس طرح پانی دینے سے خشک پودا اسی وقت سرسبز اور بارور نہیں ہو جاتا، اسی طرح اس سوسائٹی کے فوائد اور منافعے اگرچہ بالفعل محسوس نہیں ہوتے، لیکن ہم لوگ ان سے برابر متمتع ہوتے چلے جاتے ہیں اور اب جواس کے بانی اور سرگروہ اور میر مجلس یعنی مولوی سید احمد خاں بہادر عنقریب علی گڑھ میں رونق افروز ہونے والے ہیں، امید ہے کہ ان کی موجودگی میں ان کی کوششیں اور زیادہ با آور ہوں گی۔۵۔ کمیٹی خواست گار ترقی تعلیم، اہل اسلام، جس کے سرمنشا اور مہتمم سید صاحب ممدوح ہیں، اس کا قائم ہونا اس مرض کا علاج ہے جس نے ہماری قوم میں انس باقی نہیں رکھا اور جو اس کمیٹی کے قائم ہونے سے پہلے لاعلاج معلوم ہوتا تھا۔ کاش ہمارے ملک کے دولت مند مسلمان اس کمیٹی کے مطالب اور مقاصد کوغور سے دیکھیں اور سمجھیں کہ سید صاحب نے ان کے اور ان کی قوم کے لئے کیسا اعلی طریقہ نکالا ہے اور وہ بارگراں جو سید صاحب نے محض بہ متقضائے رقت جنسیت اپنے سر پر رکھاہے، اس کے اٹھانے میں آپ بھی شریک ہوں۔ اور صرف روپے پیسے ہی سے نہیں بلکہ جان و دل سے ان کی امداد کریں۔یہاں کے مسلمانوں میں جو روز بروز جہل پھیلتا جاتاہے اور جس بات میں وہ ہندوستان کی عام قوموں میں ممتاز گنے جاتے تھے، اب اسی بات میں سب سے زیادہ مبتذل ہوتے جاتے ہیں۔ اس کا بڑا سبب دولت مند مسلمانوں کی بے اعتنائی، تن آسانی اور نفس پروری ہے۔ کیا وہ اس بات کو گوارا کرتے ہیں کہ دلی اور لکھنؤ سے شہر، جو ہندوستان کے بڑے دارالعلم گنے جاتے ہیں، ان میں کوئی اتنا نہ رہے جس سے یہ پوچھا جائے کہ نماز میں کتنے فرض ہیں اور وضو کن کن چیزوں سے ٹوٹتا ہے؟ کیا وہ اس بات کو جائز رکھتے ہیں کہ جو شائستہ قوم آج ہندوستان میں فرماں روا ہے اور جس کے زن و مرد اوپیرو جوان سب علم و دانش کے پتلے اور جہل و ناشائستگی کے دشمن ہیں، ان کے عہد میں مسلمانوں سے زیادہ کوئی ذلیل و خوار نہ رہے؟سید صاحب کی جو یہ تمنا ہے کہ مسلمانوں کے حسن اتفاق سے ہر ضلع میں کم سے کم ایک مدرسہ ایسا قائم ہوجس میں علوم قدیمیہ اور فنون جدیدیہ کی تعلیم بہ وجہ شائستہ ممکن ہو، سو خداتعالیٰ ان کی یہ آرزو پوری کرے۔ ظاہراً اس کوشش کے بارور ہونے میں ابھی بہت دن باقی ہیں، ہاں اگر دولت مند اور ذی مقدور مسلمانوں نے اس مہم عظیم کا بوجھ صرف سید صاحب ہی پر نہ ڈالا اوران کے درد میں آپ بھی شریک ہوئے اور اپنے عیش وعشرت کے اوقات و مصارف کا ایک معتدبہ حصہ ان کی غم خوار ی میں صرف کیا، تو البتہ خدا تعالیٰ کی ذات سے امید ہے کہ ہندوستان کے پانچ سات بڑے بڑے شہروں میں ایسے مدرسوں کی بنیاد پڑ جائے اور جو تاریکی ساری قوم پر چھا رہی ہے اس کے دور ہونے کی کچھ کچھ امید بندھے۔اگر مسلمانوں نے اب بھی بے پروائی کو کام فرمایا اورسید صاحب کا ساتھ دینے میں کوتاہی کی اوراپنی آئندہ نسلوں کے لئے کچھ پودے نہ لگائے تو ان کی وہی مثل ہوگی جسیا کہ شمالی امریکہ کے وحشیوں کے حال میں لکھا ہے کہ جس وقت لین گسٹو کا وہ عہدنامہ لکھا گیا جو ۱۷۴۴ ع میں سلطنت ورجینا اور چھ قوموں میں بمقام پنسل وینیا قرار پایا تھا، تو اس کے لکھے جانے کے بعد سلطنت ورجینا کے ایلچیوں نے امریکہ والوں سے کہا کہ ’’وانمیزبرگ‘‘ میں ایک کالج ہے، اس میں اس ملک کے لڑکوں کی تربیت کے لئے کچھ روپیہ جمع ہے، اگر تم میں سے چھ قوموں کے سردار اپنے لڑکے کالج میں بھیج دیں تو ہماری سرکار سے ہر شئے کا سر انجام ہو سکتا ہے اور یورپ کے کل علوم ان کو سکھائے جائیں گے۔‘‘ ان وحشیوں نے کہا، ’’پہلے ایک بار ہمارے لڑکوں نے اضلاع شمالی کے کالجوں میں تعلیم پائی تھی اوران کو تمہارے علوم سکھائے تھے مگر وہ پڑھ لکھ کر آئے تو ہمارے کام کے نہ تھے۔ بھاگنا، جنگل میں رہنا، کوٹھا بنانا، ہرن پکڑنا، کچھ نہ جانتے تھے۔ ہم کو منظور نہیں کہ اپنی اولاد کوعلم پڑھا کر اپنے کاموں سے بالکل کھودیں۔‘‘ میں نے یہ جوکچھ لکھا ہے، اس سے مجھ کو مولوی سیدا حمد خاں کا خوش کرنا منظور نہیں، نہ ان کے مخالفوں سے بحث کرنی مقصود ہے، بلکہ اس کا منشا وہ ضرورت اور وہ مصلحت ہے جس کے سبب سے بھولے کوراہ بتائی جاتی اورمریض کو دوائے تلخ کی ترغیب دی جاتی ہے۔ وما علینا الاالبلاغحاشیے(۱) سید صاحب سرکاری ملازم اور جج عدالت خفیفہ تھے۔ (اسماعیل)(۲) ’خطبات احمدیہ‘ ابھی تک اردومیں نہ چھپی تھی، صرف اس کا خلاصہ انگریزی میں سید صاحب نے لندن سے ۱۸۷۰ع میں شائع کیا تھا۔ (محمداسماعیل)(۳) یہ رسالہ سید صاحب نے ۱۸۵۸ع میں لکھا تھا۔ (محمداسماعیل)(۴) رسالہ ’تہذیب الاخلاق‘ کا پہلا پرچہ ۲۴ دسمبر ۱۸۷۰ع کو شائع ہوا تھا۔ (محمداسماعیل)(۵) اس کا نام ’سائنٹیفک سوسائٹی‘ تھا اور یہ سیدصاحب نے یہ مقام غازی پور ۱۸۶۳ع میں قائم کی تھی۔ جب سید صاحب کی تبدیلی علی گڑھ میں ہو گئی تو وہ سوسائٹی کو اپنے ساتھ علی گڑھ لے آئے اور پھر یہی اس کامستقل مستقر قرار پایا۔ (محمداسماعیل)(۶) اس کمیٹی کا پہلا جلسہ ۲۶ دسمبر ۱۸۷۰ع کو سرسید نے بنارس میں منعقد کیا جہاں سے یہ کمیٹی بعد میں علی گڑھ منتقل ہو گئی۔ (محمداسماعیل)