سپاہی
جانے والے سپاہی سے پوچھو
وہ کہاں جا رہا ہے
کون دکھیا ہے جو گا رہی ہے
بھوکے بچوں کو بہلا رہی ہے
لاش جلنے کی بو آ رہی ہے
زندگی ہے کہ چلا رہی ہے
جانے والے سپاہی سے پوچھو
وہ کہاں جا رہا ہے
کتنے سہمے ہوئے ہیں نظارے
کیسے ڈر ڈر کے چلتے ہیں تارے
کیا جوانی کا خوں ہو رہا ہے
سرخ ہیں آنچلوں کے کنارے
جانے والے سپاہی سے پوچھو
وہ کہاں جا رہا ہے
گر رہا ہے سپاہی کا ڈیرا
ہو رہا ہے مری جاں سویرا
اور وطن چھوڑ کر جانے والے
کھل گیا انقلابی پھریرا
جانے والے سپاہی سے پوچھو
وہ کہاں جا رہا ہے