خداآبادی آمل پنچائیت : سندھ کا روشن چہرہ
1947 میں برصغیر میں پاک و ہند کی آزادی کے وقت پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح سندھ سے بھی ہزاروں کی تعداد میں ہندو اور سکھ ہندوستان نقل مکانی کر گئے۔ ان خاندانوں نے نقل مکانی کرتے وقت اداروں بھی اپنے ساتھ نتھی کرگئے: جیسے اسکول, کالجز, ناری شالا(بے سہارا خواتین کے گھر دارالامان), پنچائت وغیرہ۔ ان میں سے ایک قابل ذکر تنظیم یا ادارہ "خداآبادی آمل پنچائت" بھی شامل ہے۔جسے ممبئی منتقل کیا گیا جو آج تک کام کررہا ہے۔
یاد رہے کہ خداآباد سندھ میں دادو کے قریب ایک علاقہ ہے۔جہاں پر آمل برادری پہلے آباد ہوئی۔
2019 میں ایک کتاب "سندھ کے آمل: ایک عظیم الشان برادری کی بیانیہ تاریخ" شائع ہوئی۔جسے ساز اگروال نے تصنیف کیا۔زیر نظر کتاب جو کہ نام سے ظاہر ہے کہ اس میں سندھ کے آمل برادری کی بیانیہ تاریخ ہے۔یعنی آمل برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کے انٹرویوز پر مشتمل کتاب ہے۔(بطور آمل, اس میں میرا انٹرویو بھی شامل ہے). اگروال کے یہ کاوش قابل ستائش ہے, اس میں دنیا بھر سے مختلف پس منظر رکھنے والے آملوں سے کیے گئے انٹرویوز شامل ہیں۔ان میں ہر عمر کے آمل شامل ہیں لیکن زیادہ تر ان آملوں کے انٹرویو شامل ہیں جو آزادی کے وقت سندھ سے نقل مکانی کرگئے تھے۔
عام تاثر ہے کہ سندھی ہندو زیادہ تر پیسوں کے پجاری کاروباری لوگ تھے۔ لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ ہر قسم کے طبقے سے تعلق رکھتے تھے جن میں ڈاکٹرز, بیوروکریٹ, وکیل, انجینئر, ادیب, اساتذہ شامل تھے جنھیں آمل کہا جاتا تھا۔
بعض تاریخی شواہد سے پتا چلتا ہے کہ آمل وہ لوگ تھے جو میاں غلام شاہ کلہاڑو کے ساتھ بطور وزیر خداآباد(نزد دادو) میں پہلے پہل آئے تھے۔ وہ تالپور دور حکومت میں بھی وزیر اور بیوروکریٹ رہے۔ نوآبادیاتی دور میں آمل افراد نے تعلیم کے میدان میں چھائے رہے اور ان میں سے اکثر افراد بیوروکریسی اور عدلیہ میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ یہی وجہ ہے کہ تقسیم ہند کے بعد بھی وہ تعلیم, ہنر اور سماجی خدمات میں پیش پیش رہے اور بھارت سمیت برصغیر اور دنیا کے دوسرے حصوں میں اپنی سماجی و معاشی قد کاٹھ کو قائم رکھنے میں کامیاب رہے۔
زیر نظر کتاب کے پہلے حصے میں آغاز سے تقسیمِ ہند تک کی تاریخ بیان کی گئی ہے جو کہ معلومات افزا اور مضبوط بنیادیں رکھتی ہے۔اس میں قبل از آزادی سندھ کے رہن سہن, لباس, سفر و حضر, کاروباری منڈیوں اور گھروں سے متعلق شاندار تاریخ کو جمع کیا گیا ہے۔
دوسرے اور تیسرے حصے میں آزادی اور اس کے بعد آمل برادری کی بھارت اور دنیا کے دیگر حصوں میں آباد کاری اور بحالی سے متعلق لوگوں کی ذاتی یاداشتوں کو پیش کیا گیا ہے۔اگروال کا کہنا ہے کہ ذاتی یاداشت اور نظریات کو بلا کم و کاست اور تعصب کے بغیر حقائق کو بیان کرنا اولین ترجیح رہی۔
اس کتاب میں آمل براردی کی تعلیم کے میدان میں صدیوں کی کاوشیں بھی بیان کی گئی۔ تعلیم نے نہ صرف ان کے طرزِ حیات اور ثقافت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں بلکہ ان کی شخصی نشوونما کا باعث بنی۔مزید ازاں آمل افراد کی سرکاری خدمات کے علاوہ دیگر شعبوں میں بھی اعلیٰ کارکردگی کو بھی اجاگر کیا گیا۔ انھوں نے کاروبار, تحریک آزادی, فوج, کھیل, فن کاری کے ساتھ ساتھ سندھ دیے۔زمین داری میں بھی شاندار کارنامے سرانجام دیے۔
البتہ اس کتاب میں آمل برادری کے سندھی ادب کے شاندار لکھاریوں جیسے بھیرومل مہرچند ایڈوانی, پرمانند مہرچند ایڈوانی, پرمانند میوارام, جیٹھ مال پرس رام, دیا رام گڈومال شہانی اور ڈاکٹر ہاٹ چند مال چند کا سرسری ذکر کیا گیا ہے۔ اسی طرح سنیئر سیاسی راہنما جیسے ڈاکٹر چیوتھ رام گڈوانی, جیرام داس دولت رام اور پروفیسر گھن شیام داس جیٹھ نیند شیداسانی کو ذکر بھی مختصر کیا گیا ہے۔یہ آمل برادری کے عظیم الشان کردار ہیں۔
اس کتاب میں قابل ذکر حصہ وہ ہے جس میں آمل خواتین کے کرادر کو بیان کیا گیا ہے۔ نوآبادیاتی سندھ میں آمل خواتین کا شمار بہترین تعلیم یافتہ خواتین میں ہوتا تھا۔ آمل خواتین کی تعلیم اور آزادی یہ روایت آج بھی زندہ ہے۔ آمل برادری مذہبی ہم آہنگی اور مذہبی تنوع میں بھی شاندار روایت رکھتے ہیں۔ان میں سے بعض بابا گرونانک کے پیرو کار, بعض راما کرشنا مشن سے اور بعض کا رادھا سوامی مذہب سے تعلق ہے۔ قارئین کو حیرت ہوگی کہ آمل برادری کے بہت سے افراد حیدرآباد کے صوفی پیر سائیں قطب شاہ اور سائیں ناصر فقیر جیلانی کے عقیدت مند بھی رہے ہیں۔
یہ کتاب سندھی روایت اور سندھی مطالعات میں ایک بہترین اضافہ ہے۔یہ کتاب نہ صرف آمل کمیونٹی کے لیے اپنی تاریخ سے جڑے رہنے کا ایک ذریعہ ثابت ہوگی بلکہ سندھ کی تاریخ کے ایک گم گشتہ شاندار باب کی یاد کو بھی تازہ رکھے گی۔